Featured Post

noon meem rashid poetry

Image
ن م راشد  ابتدائی زندگی  نذر محمد راشد  نذر محمد راشد 1910ء میں ضلع گجرانوالہ کے قصبے علی پور چٹھہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ ن م راشد شاعری میں فارسی کا اثر بہت ہے۔ راشد نے شروع میں فارسی آمیزیت سے کام لیا یعنی ان کی شاعری میں فارسی کا رنگ نمایاں ہے۔ ان کے دادا فارسی شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی فارسی کا رنگ نظر آتا ہے۔ خاکسار تحریک سے جڑے رہے یہ تحریک آزادی کی تحریکوں میں سے ایک تحریک تھی۔ عنایت اللہ مشرقی نے اس کی بنیاد رکھی تھی مگر فکری اختلاف کی بنیاد پر بعد میں تحریک چھوڑ دی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے جڑے رہے۔ فوج کے لیے بھی خدمات پیش کی اسی وجہ سے مختلف ممالک کا دورہ بھی کیا۔ سب سے زیادہ ایران میں رہے۔ نیویارک میں بھی رہے۔ یو این او کے بھی ملازم رہے۔   شاعری کے مجموعے   ماورا 1941 میں شائع ہوئی  ایران میں اجنبی 1955 میں شائع ہوئی  لا انسان 1969 میں شائع ہوئی  گمان کا ممکن وفات کے بعد 1976 میں شائع ہوئی  راشد نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر بھی لکھی۔ ناول اور مضامین کے ترجمے بھی کیے۔  ماورا راشد کی کتاب ماورا جدید اردو شاعری

افسانہ الحمد اللّٰہ کا سماجی مطالعہ

افسانہ الحمد اللّٰہ




موضوع


ہمارا سماج جو مختلف لوگوں کا استحصال کرتا ہے۔ اس استحصال کا ہر طبقے اور پیشے کے لوگ شکار ہوتے ہیں۔ افسانہ الحمد
 اللہ میں قاسمی صاحب نے اسی طرح ایک کردار مولوی ابل کا سامنے لا کر اس کا استحصال ہوتے ہوئے دیکھایا ہے۔ 
قاسمی صاحب نے ایک منفرد انداز میں ہمارے سماج کے اسی کردار کی ذاتی زندگی کو موضوع بنایا ہے کہ وہ کس طرح سے خود کو اور اپنے خاندان کے پیٹ کو پالتا ہے۔

اس کی زندگی کی کیا ضروریات ہیں۔ وہ کیسے اپنی روزمرہ ضروریات کو پورا کرتا ہے اور پھر لوگوں کا اس معاملے میں کیا کردار
 ہے۔
 دیگر افسانوں کی طرح اس افسانے کا کردار بھی دیہی زندگی کا کردار ہے مگر اس میں اٹھایا جانے والا موضوع نہایت اہمیت کا 
حامل ہے

افشاں ملک اپنی کتاب افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی آثار وافکار میں لکھتی ہیں کہ

یہ افسانہ مسلم معاشرے میں تیزی سے آتے جارہے اس زوال کی کامیاب عکاسی کرتا ہے جس کا احساس تک اس معاشرے کو نہیں ہے۔ یہ اپنی دقیانوسی روایات اور اذکار کا رفتہ روایتوں کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے اور اس سے گلو خاصی کرنے کا احساس تک اس میں نہیں ہے۔
 

تصویر کشی


افسانہ" الحمد اللہ" میں مولوی ابل کی شکل میں ہمارے سماج کے مولوی حضرات کی زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ مولوی ابل اس سماج کی زنجیروں میں جکڑا ہوا انسان ہے۔ جسے اپنی بیٹی کی شادی کی بھی اسی طرح فکر ستاتی ہے جیسے اس سماج کے دیگر باپوں کو ستاتی ہے۔ مولوی ابل بھی اپنے نواسے کی پیدائش پر اسے دیئے جانے والے چھوچھک کے انتظام میں سر گرداں نظر آتا ہے جیسے اس سماج کے دیگر لوگ نظر آتے ہیں۔ اسے ایک بیٹی کی شادی کے بعد دوسری بیٹی کی شادی کی فکر بھی اسی طرح ستاتی ہے جیسے دیگر لوگوں کو ہوتی ہے۔ مگر شاید ہی کسی ادیب نے مولوی کی زندگی کے ان پہلوؤں کو موضوع گفتگو بنایا ہو  جیسے قاسمی صاحب نے بنایا ہے۔ قاسمی صاحب بڑی عمدگی سے ابوالبرکات کی زندگی میں آنے والے اتار چڑھاؤ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ جو پہلے انسان ہے اس کے بعد مولوی یا کچھ اور ہے۔ 

 وضع قطع


افسانے کے آغاز میں مولوی ابل کے بڑے ٹھاٹ باٹ دیکھائے گئے ہیں۔ اس کا لباس بہت عمدہ ہے۔ خوشابی لنگی، بوسکی کی قمیض،  مخمل کی واسک، نسوار کی نقرئی ڈبیا، چاندی کی انگشتریاں، عمدہ عصا اور خوشبودار تیل اس کی وضع قطع کے ساتھ ساتھ اس کی خوشحالی کو بھی واضح کرتا ہے۔  پھر شادی کے بعد اس کی اولاد کی کثرت پر خوشی اور اولاد کے نہ ہونے ہر پریشانی اس سماج کے لوگوں کی طرح کی ہے۔ وہ بھی اولاد کی کثرت پر اسے اللّٰہ کی رحمت مانتا ہے۔ اور نو بچے پیدا کر لیتا ہے۔ اور یہاں سے مولوی کی زندگی زوال کی طرف جاتی دیکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ وقت اور حالات زندگی کو بہت بدل دیتے ہیں۔
تابڑ توڑ بہت سے بچوں کے ساتھ زمانے میں بھی تابڑ توڑ تبدیلیاں ہو رہی تھی۔ مولوی ابل نے اپنی پہلونٹی کی بیٹی مہر النساء کے لیے جو جوتا ایک روپے میں خریدا تھا، اب وہی جوتا موچی نے اس کی سب سے چھوٹی بچی عمدہ النساء کے لیے چھ روپے میں تیار کیا تھا۔
ان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ مولوی ابل کے لباس میں بھی تبدیلیاں اور زوال دیکھایا گیا ہے کہ بوسکی کی قمیض پوتڑوں میں بدل جاتی ہے۔ خوشابی لنگی کی حالت صافی جیسی ہو جاتی ہے۔ انگشتریوں کی چاندی اور عصا کا گلٹ بیچ کر وہ لڑکیوں کے بندے اور جھمکے خرید لیتا ہے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ نمازیوں کی تعداد بھی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ضروریات کی چیزیں مہنگی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ مولوی ابل کی بڑی بیٹی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ کر اپنے باپ کی رہی سہی کمر توڑ دیتی ہے۔ بیٹی بےشک خدا کی رحمت ہی ہوتی اگر اس کے معاملات میں والدین اس سماج کے اصولوں اور روایتوں سے جڑے نہ ہوتے۔ ان حالات میں مولوی ابل کی جو ذہنی حالت ہے وہ دیکھنے لائق ہے۔ 

اقتباس

ادھر مہر النساء نے چودھویں سال میں قدم رکھا، ادھر مولوی ابل کی یہ حالت ہو گئی کہ رکوع میں گیا تو اٹھنے کا نام نہیں لے رہا۔ سجدے میں پڑا ہے۔ ہوشیار مقتدیوں کو وقت پر کھانسی کا دورہ نہ پڑتا تو ممکن ہے مولوی ابل ایک سجدے میں ظہر کی عصر سے ملا دیتا۔ رمضان المبارک میں تراویح پڑھانے کی سعادت حسب دستور اسی کے سپرد ہوئی مگر وہ مولوی ابوالبرکات جو آیات یا الفاظ کی غلطی تو کیا، کبھی زیر زبر کی غلطی کا بھی مرتکب نہیں ہوا تھا البقرہ سے النساء میں جا نکلا۔

تنقیدی جائزہ


مولوی ابل کی یہ ذہنی حالت اس باپ کی عکاسی کرتی ہے جس کے پاس بیٹی کو رخصت کرنے کا کوئی ذریعہ یا وسیلہ نہیں ہے۔ شاید ہی کسی نے مولوی کی زندگی کے ان پہلوؤں کو دیکھا یا سوچا ہو جس پہلو سے قاسمی صاحب نے ہمیں دیکھایا ہے۔ ہمارے نزدیک مولوی کا کام پانچ وقت کی امامت کروانا، عبادت کرنا، تبلیغ کرنا، ہمارے عزیزوں کو جنازے پڑھنا اور ہمارے بچوں کو دین کی تعلیم دینا ہے۔  مگر قاسمی صاحب نے ان تمام پہلوؤں کے ساتھ جو مولوی ابل کی زندگی میں رونما ہوتے ہیں اس افسانے کو قلم بند کیا ہے۔ 
وہ بتاتے ہیں کہ ابوالبرکات مولوی بعد میں ہے پہلے وہ ایک انسان ہے۔ اس کی زندگی کی بھی وہی ضروریات اور مسائل ہیں جو سماج کے دیگر لوگوں کے ہوتے ہیں۔ ایک انسان جس نے اپنی پوری زندگی مسجد کی امامت کروانے میں گزار دی اس کا نعم البدل اسے کیا ملا؟۔ بڑھتے ہوئے مسائل اور ضروریات زندگی کی ناگزیر طلب بس اور کچھ نہیں۔ سماج کے لوگ کیوں اس بارے میں نہیں سوچتے اور خیال کرتے۔  ہم سماج کے لیے کام کرنے والے دیگر لوگوں اور دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی تو ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے اجرت دیتے ہیں تو مسجد کے امام کا خیال ہمیں کیوں نہیں آتا۔ یہ سوچ کہ دین کا کام کرنے والا جنت کما رہا ہے کیا اس کے بچوں کا پیٹ بڑھنے کے لیے کافی ہے؟۔ 
وہ مولوی جو سارا دن مسجد کو دیتا ہے وہ کیسے اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہو گا؟ اگر وہ بھی حالات سے تنگ آ کر روزی کمانے نکل کھڑا ہو تو پھر مسجد میں اذان کون دے گا؟۔ ہمارے جنازے پڑھنے کے لئے کون آئے گا؟۔ ہم کس کی امامت میں نماز اور 
تراویح پڑھیں گے؟۔ نہایت اہم موضوع اس افسانے کو پڑھ کر سر اٹھاتا ہے۔

تنقیدی جائزہ


اگر مولوی ابل کی ذاتی زندگی کو دیکھیں تو وہ کافی حد تک سماجی اور روائتی قسم کا ایک ایسا انسان نظر آتا ہے جو اس سماج کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔  اولاد کی کثرت کی خواہش ہونا یا نواسے کی پیدائش پر اس کے لیے چھوچھک کے انتظام کے لیے سرگرداں ہونا یا پھر بیٹی کے سسرال کی طرف سے پریشانیوں کا سامنا کرنا اور فکر مند ہونا خاصا سماجی رویہ ہے۔
 مولوی ابل بھی اس سماج کی زنجیروں میں جکڑا ہوا اور اس میں سفر کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اپنی بیٹی کی شادی پر گھر میں ڈھولک نہیں رکھنے دیتا کہ یہ مولوی کا گھر ہے مگر جب داماد ڈھول شہنائی اور گولوں کے ساتھ برات لاتا ہے تو داماد کو روک نہ سکا۔ مگر چونکہ وہ بیٹی کا باپ اسی لئے اعتراض نہیں کر پاتا۔ یہاں اسے اپنا مولوی ہونا یاد نہیں رہتا اگر کچھ یاد رہتا ہے تو صرف اتنا ہے وہ ایک بیٹی کا باپ ہے۔
 

سماج کی پیش کش


یہی وہ سماج کی پیش کش ہے جسے قاسمی صاحب اپنے منفرد انداز میں پیش کرتے ہیں کہ عام آدمی ہو یا مسجد کی امامت کروانے والا مولوی ہو سب اس سماج کے اصولوں اور روایتوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح بوہنی کی رسم مولوی ابل ادا کرتا ہے۔ جس میں وہ اپنے شاگرد کے کپڑے کی دکان کا افتتاح کرتے ہوئے اپنی کل جمع پونجی تینتالیس روپے میں سے بیالیس روپے کا سوٹ خرید لیتا ہے۔ بھلا دین اسلام کی عکاسی کرنے والا شخص بھی سماج کی فرسودہ روایات اور رسومات میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے۔
 یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟۔ مگر جب ہم معاملے کے پس منظر میں جاتے ہیں اور جو وجہ سامنے آتی ہے اسے پڑھ کر قاری کے دل کو گھونسا سا لگتا ہے کہ مولوی ابل کے اس عمل کے پیچھے وہ پریشان حال باپ کھڑا ہے جو اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پریشان ہے۔

اقتباس

اس روز مولوی ابل نے اپنے شاگرد اور اس کی بوڑھی ماں کا دل رکھنے کے لیے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کیا ہے۔ زیب النساء کے پاس گیا۔عارف کی ماں! شمیم احمد کہتا ہے کہ وہ میری بوہنی سے کاروبار شروع کرے گا۔ تم کہو تو مہرن کے لیے ایک سوٹ کا کپڑا لے لیں جہیز کے لیے ضرورت تو ہے ہی۔ ویسے سارے گاؤں والوں کے سامنے بوہنی کی رسم ادا ہو گی، اس لیے ذرا سا رعب بھی بیٹھ جائے گا۔ پھر شمیم احمد کا دل رکھنا تو میرا فرض ہے۔ ایک تو پرانا شاگرد ہے، دوسرے حافظ عبد الرحیم مرحوم و غفور کا نور نظر ہے، تیسرے۔مولوی ابل نے رک کر ادھر اُدھر دیکھا اور پھر سرگوشی میں بولا۔ عارف کی ماں! اللّٰہ جل شانہ، کی قسم مجھے تو ایسا لگ رہا ہے جیسے اللّٰہ جل شانہ نے اسے مہرن ہی کے لیے آسمان پر سے اتارا ہے۔

گھریلو حالات


مولوی ابل کے گھر کے منظر نامے کی بات کی جائے تو وہ بھی بڑا دل دکھا دینے والا منظر نامہ ہے۔ ہفتے میں ایک دن جمعرات کو مختلف عقیدت مندوں کے ہاں سے روٹیاں آتی ہیں۔ اس دن گھر میں چولہا جلتا ہے نہ ہانڈی پکتی ہے۔ سب پیٹ بھر کر کھاتے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان ہفتے میں ایک دن ہی کھانا کھاتا ہے؟۔
 کیا مولوی ابل اور اس کے گھر والوں کی طرح صرف جمعرات کو ملنے والی روٹیوں سے ہم لوگ گزارا کر سکتے ہیں؟۔ کیا ہفتے کے باقی چھ دن مولوی ابل اور اس کے بچوں کو بھوک نہیں لگتی؟۔ یہی وہ موضوع ہے جس کی طرف قاسمی صاحب اشارہ کرتے ہیں کہ وہ مولوی جس نے اپنی ساری زندگی اس سماج کے لوگوں کی امامت کرتے ہوئے گزار دی بدلے میں اس سماج کے لوگ اسے کیا دے رہے ہیں جمعرات کے روز "وظیفے" کے نام پر چند روٹیاں۔ یہ لفظ وظیفہ بھی خاصا مزحقہ خیز سا لگتا 
ہے۔ 

تنقیدی جائزہ


جیسے ایک طنز ہو جو قاسمی صاحب کر رہے ہیں کہ کتنا شاندار وظیفہ مولوی ابل کو مل رہا ہے وہ بھی ہفتے میں ایک بار۔  پھر خوراک کے علاؤہ کپڑے جوتی کی بھی انسان کو ضرورت ہوتی ہے اور اس حوالے سے قاسمی صاحب  چوہدری فتح داد کا کردار سامنے لاتے ہیں جو ہر نئی فصل تیار ہونے پر مولوی ابل کو ایک سوٹ دیتا ہے جس کو کاٹ پیٹ کر اس کے بچوں کا لباس تیار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولوی ابل کا اپنا لباس خستہ حالی کا شکار ہے۔ کیونکہ نئے کپڑے کی شکل میں ملنا والا لباس تو اس کے بچوں کے کپڑے بننے میں استعمال ہو جاتا تھا۔ مولوی ابل کی ذاتی اور گھریلو زندگی کو پڑھ کر نہایت اہم موضوع سر اٹھاتا ہے کہ وہ مولوی ابل جس نے اپنی ساری زندگی مسجد کی امامت کرتے ہوئے اور گاؤں کے بچوں کو دین کی تعلیم دیتے ہوئے گزار دی کیا اس کے بچوں کو اتنا حق بھی نہیں کہ دو وقت عزت کی پیٹ بھر روٹی کھا سکیں اور تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا پہن سکیں۔ یہ ہمارے سماج کا ایک تلخ روپ ہے۔
پورے افسانے میں چوہدری فتح داد ایک ایسا انسان ہے جو اندھیرے میں روشنی کی کرن کی ماند نظر آتا ہے۔ جو ہر قدم پر مولوی ابل کی مدد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ مولوی ابل کی بیٹی مہر النساء کے رشتے کے لیے باگ ڈور کرنا، شادی پر خرچہ کرنا اور ہر شام وظیفہ بھجوانا اس امر کی تصدیق کرتا ہے۔ خود مولوی ابل بھی اس بات کا اقرار کرتا ہے۔ مگر پورے افسانے میں مولوی ابل کی مدد کرنے والوں میں صرف چوہدری فتح داد کا چہرہ نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولوی ابل اپنی ہر پریشانی کا حال سب سے پہلے چوہدری فتح داد کو جا کر ہی بتاتا ہے۔  اس کردار کے زریعے قاسمی صاحب نے اس سماج کے لوگوں کو ان کے فرائض بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہم لوگ چوہدری فتح داد کی طرح اپنا کردار ادا کریں۔ جو کہ انسان دوستی کا سبق دیتا ہے۔
ہمارے سماج کے اکثر لوگ مولوی حضرات کو برا کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ لوگ خود کچھ کیوں نہیں کرتے۔ یہ سوال افسانے میں زیب النساء کی شکل میں افسانے کے اندر ہمارے سامنے آتا ہے:

اقتباس

پر کسان بیج تو بوتا ہے! زیب النساء بحث کرتی تم نے کیا کیا ہے؟ 
"الحمد اللہ مولوی ابل کہتا ہے "میں نے بہت کچھ کیا ہے۔میں نے ہر نماز کے بعد دعائیں مانگی ہیں؟ اور زیب النساء لاجواب ہو جاتی ہے۔

تجزیہ

زیب النساء کا یہ سوال کہ مولوی ابل نے کیا کیا ہے؟ انتہائی دل دکھا دینے والا سوال ہے یعنی ابھی بھی یہ پوچھنے کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ مولوی ابل نے آخر کیا ہی کیا ہے؟ اس نے ساری زندگی سماج کے لوگوں کے لیے اور دین کی تبلیغ کے لیے وقف بلکہ صرف کر دی اس کے بعد بھی کیا یہ سوال پوچھنا درست ہو گا کہ مولوی ابل نے کیا کیا ہے؟۔ اور پھر مولوی ابل کا جواب الحمد اللہ سامنے والے کو سچ میں لاجواب کر دیتا ہے۔ 
اتنے مسائل کے باوجود مولوی ابل کا الحمد اللہ مولوی ابل کی شکر گزاری کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اس سماج کے لوگوں اور اس کے بودے نظام پر ایک تماچے کی طرح پڑتا ہے۔ کہ اتنے مسائل کے باوجود وہ اللّٰہ کا شکر گزار ہے۔ مگر افسانے کے آخری حصے میں چوہدری فتح داد کی موت پر مولوی ابل کا اپنی بیوی کو یہ کہہ کر فتح داد کی موت کی اطلاع دینا کہ

اقتباس

مبارک ہو عارف کی ماں! تم نواسے کے چولے کے لیے رو رہی تھی، اور اللّٰہ جل شانہ نے چو ے،چنی اور ٹوپی تک کا انتظام کر دیا ہے۔ جنازے پر کچھ نہیں تو بیس روپے تو ضرور ملیں گے ابھی کچھ دیر تک جنازہ اٹھے گا۔ چوہدری فتح داد مر گیا ہے نا اور پھر ایک دم جیسے کسی نے مولوی ابل کو گردن سے دبوچ لیا ہے اس کی اوپر اٹھی ہوئی پتلیاں بہت اوپر اٹھ گئی۔ پھر ایک لمحے کے دردناک سناٹے کے بعد مولوی ابل جو مرد کے چلا چلا کر رونے کو ناجائز اور خلاف شرع قرار دیتا تھا چلا چلا کر رونے لگا اور بچوں کی طرح پاؤں پٹختا ہوا ڈیوڑھی کے دروازے میں سے نکل کر باہر بھاگ گیا۔

مرکزی خیال


چوہدری فتح داد کی موت کی خبر خوشی کی خبر کی طرح سنانا ایک تازیانے کی طرح اس سماج کے بے حس لوگوں کے ضمیروں پر پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کہ وہ چوہدری جس نے مولوی ابل کی زندگی کے ہر مسئلے میں اس کا ساتھ دیا اس کی موت کی خبر مولوی ابل مبارک ہو جیسے الفاظ کے ساتھ سنا رہا ہے گویا وہ معاشی حالات سے اس قدر تنگ ہے کہ کسی کی موت کی خبر اس کے لیے خوشی کا باعث ہے۔چاہے وہ فتح داد کی موت کی خبر ہی کیوں نہ ہو مگر وہ موت اس  کے گھر رزق کا سامان لا رہی ہے۔ 
بظاہر قاری مولوی ابل کو مادیت پسند اور خود غرض سمجھتا ہے مگر جب اس کے پس منظر میں واقع حالات اور واقعات کو دیکھتا ہے تو خود کو شرمندگی کی گہرائیوں میں اترتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ مولوی ابل کی ذاتی زندگی کو سماجی حوالے سے موضوع بنا کر قاسمی صاحب اس سماج کے کھوکھلے اور غیر منصفانہ اصولوں پر کاری ضرب لگاتے دیکھائی دیتے ہیں۔ مولوی ابل ہر مشکل میں شکر کرتا دیکھائی دیتا ہے۔ 
فتح داد کی موت پر مولوی ابل کی پریشانی کا حل ہونا اس امر کو ذہن میں لاتا ہے کہ چوہدری فتح داد جیسے کسی انسان کی موت مولوی ابل جیسے کسی انسان کے گھر میں دو وقت کی روٹی کا سامان پیدا کر رہی ہوتی ہے۔ مہر النساء کے بیٹے جیسے کسی بچے کے لباس کا انتظام کر رہی ہوتی ہے۔ ابوالبرکات جیسے کسی باپ کی عزت کا بھرم رکھ رہی ہوتی ہے۔ زیب النساء کی طرح کسی کی بیٹی کے جہیز کا سامان مہیا کر رہی ہوتی ہے۔ یہ ہمارے سماج کے وہ تلخ موضوعات ہیں جس پر بہت کم قلم اٹھایا جاتا ہے۔ 


Comments

Popular Posts

مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری

احمد ندیم قاسمی کا افسانہ سفارش

قدرت اللہ شہاب

طنز و مزاح

اردو ڈراما تاریخ و تنقید/ اردو ڈراما کے اجزائے ترکیبی

آپ بیتی کی تعریف

افسانہ لارنس آف تھیلیبیا کا سماجی مطالعہ

مرزا غالب کا تعارف

افسانہ جوتا کا سماجی مطالعہ