احمد ندیم قاسمی افسانہ سفارش ہمارے سماج کا ایک اور منظر نامہ جو باآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ غریب آدمی کو اپنا کام نکلوانے کے لیے کسی پہنچ والے آدمی سے سفارش کروانی پڑتی ہے۔ اپنا معمولی سا کام کروانے کے لیے بھی طرح طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ لوگوں کی منتیں کرنی پڑتی ہیں۔ اسی موضوع پر قاسمی صاحب کا افسانہ سفارش ہے۔ جس میں غریب کوچوان فیکا اپنے باپ کے علاج کے لیے مختلف لوگوں کی منتیں کرتا ہے کہ اپنی سفارش سے میرے باپ کو ہسپتال میں علاج کے لیے جگہ دلوا دو اور کسی طرح ڈاکٹر تک رسائی کا راستہ نکلوا دو۔ موضوع پورے افسانے میں یہی موضوع زیر بحث ہے۔ کہ کیسے فیکا کوچوان اپنے ساتھی کوچوان کے سالے کی سفارش کے زریعے ہسپتال کے برانڈے میں جگہ لینے میں کامیاب ہوتا ہے اور پھر کیسے فیکا بابو جی نامی ایک شخص کے گھر کے چکر کاٹ کاٹ کر اسے یہ سفارش کرنے کی درخواست کرتا ہے کہ کسی طرح ڈاکٹر صاحب سے کہہ کر ایک بار میرے باپ کی خراب آنکھ دیکھنے کی سفارش کر دو۔ فیکا ایک غریب اور عجز و انکساری والا آدمی ہے۔ اس کے ہر عمل میں عاجزی اور ممن...
مشتاق احمد یوسفی مشتاق احمد یوسفی کا تعارف 14 اگست 1923 کو مشتاق احمد یوسفی پیدا ہوا جے پور میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام عبدالکریم خان یوسفیر۔ مشتاق احمد یوسفی نے مسلم یونیورسٹی سے ایم اے فلسفہ میں تعلیم حاصل کی جو 1945 میں مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ ایم اے کے ساتھ ایل ایل بی کی ڈگری بھی مکمل مشتاق احمد یوسفی نے 1946 میں انڈین آرڈر اینڈ اکاؤنٹ سروس میں شمولیت اختیار کی۔ مشتاق احمد یوسفی کی بینائی شروع کرنا ہی خاص بات ہے۔ مشتاق احمد یوسفی 1950 ہجرت کر کے کراچی آئے اور انہوں نے اپنے گھر میں کام شروع کیا۔ مسلم کمرشل بینک، الائیڈ بینک اور ایچ بی ایل بینک میں بھی ملازم۔ اس کے بعد 1979 میں لندن گئے تو سب سے بڑے بینک بی سی آئی ادارے کے صدر بن گئے۔ 190 تک مشتاق احمد یوسفی نے اس ادارے میں ملازم کی اور ریٹائر ہو گئی۔ مشتاق احمد یوسفی کا سب سے پہلا مضمون صنف لاغر شائع ہوا۔ مرزا ادیب جو اس وقت رسالہ کے ادب لطیف کے ایڈیٹر تھے انہوں نے یہ مضمون واپس کر دیا تو مشتاق احمد یوسفی نے ویب مضمون رسالہ سویرا میں حنیف راما کے ایڈیٹر بھی۔ سویرا میں ان کا پہلا مضمون 1955 میں صنف لاغر کا نام...
اردو آپ بیتی کی تعریف آپ بیتی کو خود نویسی سے بھی کہا جاتا ہے یعنی آٹو بائیو گرافی اسے سوانح عمری بھی کہا جاتا ہے۔سوانح عمری مکمل ہوتی ہے اور آپ بیتی نام مکمل ہوتی ہے۔ سوانح عمری مرے ہوئے لوگوں کی لکھی جاتی ہے۔ اس میں پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام واقعات درج کیے جاتے ہیں۔آپ بیتی اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا انسان ہے۔ آپ بیتی میں انسان اپنی زندگی کے حالات و واقعات اور ہر طرح کے پہلو کو بیان کرتا ہے جبکہ زبان عمری میں دوسرے انسان کے حالات اور واقعات یعنی اس نے زندگی میں کیا کچھ کیا۔وہ تمام واقعات لکھے جاتے ہیں آپ بیتی کے لیے شاعر یا ادیب ہونا ضروری نہیں ہے یعنی آپ بیتی کوئی بھی شخص لکھ سکتا ہے مگر اچھی آپ بیتی وہی لکھ سکتا ہے جس نے بھرپور زندگی گزاری ہو اور اس کی زندگی دلچسپ واقعات سے بھری ہوئی ہو۔ آپ بیتی میں انسان اپنی زندگی کے اچھے اور برے واقعات کو لکھتا ہے۔ جو کہ بڑی ہمت کا کام ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ آج تک کوئی آپ بیتی ایسی نہیں ہے جو سو فیصد سچ ہو یعنی اس میں بیان کیے جانے والے واقعات درست ہوں۔ آپ بیتی کو مسیحی دینیات میں کنفیشن کہا جاتا ہے۔ اردو میں اس کا مطلب اعترافات ہے...
قدرت اللہ شہاب قدرت اللہ شہاب کی شخصیت قدرت اللہ شہاب کا تعلق گلگت سے تھا۔ آپ 26 فروری 1917ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے گاؤں کا نام چمکور صاحب تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے ہی حاصل کی۔ سکول کی تعلیم امبالہ سے حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ انہوں نے ایم اے انگریزی میں کیا۔ انڈین سول سروس یعنی ائی سی ایس میں منتخب ہوئے۔ یعنی سی ایس ایس مقابلے کا امتحان جسے پہلے ائی سی ایس کہتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب پہلے مسلمان تھے جنہوں نے ائی سی ایس کو پاس کیا۔ کیونکہ آدھا کوٹا انگریزوں کا اور آدھا ہندوؤں اور مسلمانوں کا ہوتا تھا۔ قدرت اللہ شہاب نے بہار، اڑیسہ اور پنگال میں بھی ملازمت کی۔ قدرت اللہ شہاب قیام پاکستان کے بعد کشمیر کے پہلے جنرل سیکرٹری بنے۔ پھر گورنر جنرل غلام محمد کے سیکرٹری بنے۔ اس کے بعد سکندر مرزا کے بھی سیکرٹری رہے۔ پھر جنرل ایوب خان نے انہیں اپنا سیکرٹری مقرر کیا۔ اس کے بعد جب یحیی کا دور آیا تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ قدرت اللہ شہاب اقوام متحدہ کے ادارے یونسکو سے بھی کچھ عرصہ منسلک رہے۔ اسی دوران انہوں نے اسرائیل کا خفیہ دورہ بھی کیا۔ ان کا سب سے اہ...
اردو ڈراما ڈراما کا لفظی معنی ڈراما انگریزی لفظ ہے مگر اصل میں "Drao" یونانی لفظ کی بنیاد ہے۔ جب انگریزی میں آیا تو ڈرامہ بنا۔ اردو میں بھی یہی لفظ مستعار یعنی ادھار لیا گیا ہے۔ سنسکرت میں ڈرامے کے لیے درشیاکاؤ اور ہندی میں ڈراما کو روپک یا ناٹک کہا جاتا ہے۔ اردو ڈرامے کی تعریف و اقسام ڈرامے کی تعریف "ڈراما سے مراد ایسی نظم ہے جس کو دیکھایا اور دیکھا جاتا ہے". "ایسی نظم جس کو عملی شکل دی جا سکے". ڈاکٹر محمد اسلم قریشی ڈرامے کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ڈراما اسٹیج پر فطرت کی نقالی کا ایسا فن ہے جس میں اداکاراؤں کے ذریعے زندگی کے غیر معمولی اور غیر متوقع حالات کے عمل میں قوت ارادی کا مظاہرہ تماشائیوں کے روبرو ایک معین وقت اور مخصوص انداز میں کیا جاتا ہے۔ ڈرامے کی اقسام ڈرامے کی بنیادی طور پر دو قسمیں المیہ طربیہ المیہ سے مراد الم یعنی غم کو کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسا ڈراما ہے جس کا انجام غم پر ہو۔ المیہ کو انگریزی میں ٹریجڈی بھی کہا جاتا ہے۔ طربیہ طرب سے نکلا ہے جس کے معنی خوشی کے ہیں۔ اس سے مراد ایسا ڈراما ہے جس کا انجام خوشی پر ہو۔ طر...
اردو ادب میں طنز و مزاح سے کیا مراد ہے زندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ انسان اور حیوان میں سب سے بڑا فرق ہنسی کا ہے۔ انسان ہنس سکتا ہے لیکن حیوان نہیں ہنستا۔ طنز و مزاح انسان کو سنجیدگی سے بچاتا ہے۔ طنز و مزاح کا مقصد معاشرے کو مستحکم بنیاد دینا ہے۔ جس معاشرے میں طنز و مزاح کا سلسلہ ہوگا۔ وہ معاشرہ زیادہ باشعور ہوگا اور وہ معاشرہ تندرست ہونے کے ساتھ ساتھ صحت مند بھی ہوگا۔ طنز و مزاح کی تعریف یہ ہے ارسطو کے مطابق ہنسی سے مراد ہے کہ ہنسی کسی ایسی کمی یا بد صورتوں کو دیکھ کر معرض وجود میں آتی ہے جو درد انگیز نہ ہو۔ جرمن فلاسفر کانٹ کے مطابق ہنسی اس وقت نمودار ہوتی ہے جب کوئی چیز ہوتے ہوتے رہ جائے اور ہماری توقعات اچانک ایک بلبلے کی طرح پھٹ کر ختم ہو جائیں۔ شوپن ہاور لکھتے ہیں کہ ہنسی تخیل اور حقیقت کے مابین نہ ہمواری کے وجود کو اچانک محسوس کر لینے سے جنم لیتی ہے۔ سٹیفن کے مطابق مزاح کیا ہے؟ یہ زندگی کی ناہمواری کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فن کارانہ اظہار ہو جائے۔ طنز اور مزاح دو مختلف چیزیں ہیں۔ مزاح کو انگریزی ...
افسانہ الحمد اللّٰہ موضوع ہ مارا سماج جو مختلف لوگوں کا استحصال کرتا ہے۔ اس استحصال کا ہر طبقے اور پیشے کے لوگ شکار ہوتے ہیں۔ افسانہ الحمد اللہ میں قاسمی صاحب نے اسی طرح ایک کردار مولوی ابل کا سامنے لا کر اس کا استحصال ہوتے ہوئے دیکھایا ہے۔ قاسمی صاحب نے ایک منفرد انداز میں ہمارے سماج کے اسی کردار کی ذاتی زندگی کو موضوع بنایا ہے کہ وہ کس طرح سے خود کو اور اپنے خاندان کے پیٹ کو پالتا ہے۔ اس کی زندگی کی کیا ضروریات ہیں۔ وہ کیسے اپنی روزمرہ ضروریات کو پورا کرتا ہے اور پھر لوگوں کا اس معاملے میں کیا کردار ہے۔ دیگر افسانوں کی طرح اس افسانے کا کردار بھی دیہی زندگی کا کردار ہے مگر اس میں اٹھایا جانے والا موضوع نہایت اہمیت کا حامل ہے افشاں ملک اپنی کتاب افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی آثار وافکار میں لکھتی ہیں کہ یہ افسانہ مسلم معاشرے میں تیزی سے آتے جارہے اس زوال کی کامیاب عکاسی کرتا ہے جس کا احساس تک اس معاشرے کو نہیں ہے۔ یہ اپنی دقیانوسی روایات اور اذکار کا رفتہ روایتوں کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے اور اس سے گلو خاصی کرنے کا احساس تک اس میں نہیں ہے۔ تصویر کشی اف...
Ghalib مرزا غالب مرزا غالب کا تعارف پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے کوئی بتلائے کہ ہم بتلائے کیا جدید اردو نثر کا بانی غالب ہے غالب کی ابتدائی زندگی دسمبر 1797 کو آگرہ میں چار گھڑی سورج نکلنے سے پہلے ایک بچے نے جنم لیا۔ جس کا نام مرزا اسد اللہ خان غالب رکھا گیا۔ مرزا غالب کے خطوط سے ہی غالب کی زندگی کے بارے میں بہت سی معلومات مل جاتی ہیں۔ غالب کے آباؤ اجداد ت رکمانستا ن کے ر ہنے والے تھے۔ پھر بعد میں ہجرت کر کے محمد شاہ کے دور میں وہ لوگ ہندوستان آئے۔ غالب نے یہ بات خود بھی بتائی ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کا پیشہ سپہ گری تھا یعنی کہ وہ فوج میں تھے۔ غالب کے پردادا کا نام ترسم خان تھا۔ ان کے بیٹے کا نام قوقان بیگ تھا اور یہ غالب کے دادا بھی تھے۔ انہوں نے ہی بعد میں آگرہ...
افسانہ لارنس آف تھیلیبیا ہمارے سماج کے دیہی علاقوں میں جاگیردارانہ نظام خاصی مضبوطی کے ساتھ اپنی جڑیں گاڑھے بیٹھا ہے۔ یہ منظر ہر دیہی علاقے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں کا کوئی ایک چوہدری ، ملک یا وڈیرا جیسا شخص ضرور ہوتا ہے جو گاؤں اور اس میں رہنے والوں کو اپنی جاگیر اور خود کو ان کا حاکم سمجھتا ہے۔ آئے روز کئی غریب لوگ ان کے ظلم اور نا انصافیوں کی بھینٹ چڑھتے رہتے ہیں۔ جاگیردارانہ نظام میں استحصال کی ایک شکل قاسمی صاحب کے افسانے لارنس آف تھلیبیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ موضوع ا فسانے کا عنوان ہی کافی حد تک اپنے اندر افسانے کے موضوع کو سمو لیتا ہے۔ لارنس دراصل ملک خدا بخش کے باز کا نام ہے جو لالیوں کا شکار بہت شوق اور سفاکیت سے کرتا ہے۔ اس پس منظر کے پیچھے ملک خدا بخش کی اپنی ذات ہے جو معصوم لڑکیوں کو اپنی درندگی کی بھینٹ چڑھاتا ہے۔ قاسمی صاحب نے بڑی عمدگی سے اس حیوانی فعل کو باز کا لالیوں کا شکار کر نے سے تشبیہ دے کر واضح کیا ہے۔ اور اس منظر نامے کو افسانے میں پیش کیا ہے اقتباس افسانے کا آغاز جس منظر سے ہوتا ہے اس میں مختلف نچل...
افسانہ جوتا دیہی سماج کی بات کی جائے تو وہاں انسان کی توقیر جوتے برابر بھی نہیں ہے۔ انسانی بے توقیری کے اس پہلو پر قاسمی صاحب کا افسانہ جوتا خاصی اہمیت کا حامل ہے.افسانے کا عنوان ہی کافی حد تک اس حیثیت یا یہ کہہ لو اوقات کو واضح کر دیتا ہے جو اس سماج کے اونچے درجے کے لوگوں نے غریب آدمی کی مقرر کی ہوئی ہے۔ اونچے درجے کے لوگ اپنے سے کم حیثیت والے بندے کو اپنے سے آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتے اور ہر موڑ پر انہیں پیچھے کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ موضوع افسانہ جوتا کا موضوع بھی یہی ہے جس میں کرموں نامی میراثی کا کردار اس غریب آدمی کا کردار ہے جو اونچے درجے کے لوگوں ک ہاتھوں پستا رہتا ہے۔ کرموں ایک محنتی اور اچھی سوچ رکھنے والا انسان ہے۔ جو اپنے بچوں کو یہ سوچ کر تعلیم دلواتا ہے کہ وہ بھی اپنے باپ کی طرح تالی بجا بجا کر قوالی گاتے ہوئے اور اپنے سے اونچے درجے کے لوگوں کے آگے جھکتے ہوئے زندگی نہ گزار دیں۔ مگر اس فیصلے پر کرموں کو لوگوں کی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کا ردعمل ایسے ہے جیسے کوئی انہونی ہو گئی ہو۔ کرموں کو مذاق اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔...
Comments
Post a Comment
If you want to read an article on a specific topic, let me know. I will write an article on this topic.