Featured Post

noon meem rashid poetry

Image
ن م راشد  ابتدائی زندگی  نذر محمد راشد  نذر محمد راشد 1910ء میں ضلع گجرانوالہ کے قصبے علی پور چٹھہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ ن م راشد شاعری میں فارسی کا اثر بہت ہے۔ راشد نے شروع میں فارسی آمیزیت سے کام لیا یعنی ان کی شاعری میں فارسی کا رنگ نمایاں ہے۔ ان کے دادا فارسی شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی فارسی کا رنگ نظر آتا ہے۔ خاکسار تحریک سے جڑے رہے یہ تحریک آزادی کی تحریکوں میں سے ایک تحریک تھی۔ عنایت اللہ مشرقی نے اس کی بنیاد رکھی تھی مگر فکری اختلاف کی بنیاد پر بعد میں تحریک چھوڑ دی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے جڑے رہے۔ فوج کے لیے بھی خدمات پیش کی اسی وجہ سے مختلف ممالک کا دورہ بھی کیا۔ سب سے زیادہ ایران میں رہے۔ نیویارک میں بھی رہے۔ یو این او کے بھی ملازم رہے۔   شاعری کے مجموعے   ماورا 1941 میں شائع ہوئی  ایران میں اجنبی 1955 میں شائع ہوئی  لا انسان 1969 میں شائع ہوئی  گمان کا ممکن وفات کے بعد 1976 میں شائع ہوئی  راشد نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر بھی لکھی۔ ناول اور مضامین کے ترجمے بھی کیے۔  ماورا راشد کی کتاب ماورا جدید اردو شاعری

افسانہ جوتا کا سماجی مطالعہ

افسانہ جوتا




دیہی سماج کی بات کی جائے تو وہاں انسان کی توقیر جوتے برابر بھی نہیں ہے۔ انسانی بے توقیری کے اس پہلو پر قاسمی صاحب کا افسانہ جوتا خاصی اہمیت کا حامل ہے.افسانے کا عنوان ہی کافی حد تک اس حیثیت یا یہ کہہ لو اوقات کو واضح کر دیتا ہے جو اس سماج کے اونچے درجے کے لوگوں نے غریب آدمی کی مقرر کی ہوئی ہے۔

 اونچے درجے کے لوگ اپنے سے کم حیثیت والے بندے کو اپنے سے آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتے اور ہر موڑ پر انہیں پیچھے کی 
طرف دھکیلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

موضوع

افسانہ جوتا کا موضوع بھی یہی ہے جس میں کرموں نامی میراثی کا کردار اس غریب آدمی کا کردار ہے جو اونچے درجے کے لوگوں ک ہاتھوں پستا رہتا ہے۔
کرموں ایک محنتی اور اچھی سوچ رکھنے والا انسان ہے۔ جو اپنے بچوں کو یہ سوچ کر تعلیم دلواتا ہے کہ وہ بھی اپنے باپ کی طرح تالی بجا بجا کر قوالی گاتے ہوئے اور اپنے سے اونچے درجے کے لوگوں کے آگے جھکتے ہوئے زندگی نہ گزار دیں۔ مگر اس فیصلے پر کرموں کو لوگوں کی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کا ردعمل ایسے ہے جیسے کوئی انہونی ہو گئی ہو۔ کرموں کو مذاق اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کہ ایک میراثی کیوں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا سوچے۔ کیا میراثی ہونا کوئی گالی ہے؟ یا کوئی ناپاک اور حرام شے ہے؟ ایسے میں تو ہندوؤں کا بنایا ہوا طبقاتی نظام شودر ذہن میں آتا ہے۔جہاں شودر ذات کا کام صرف غلامی کرنا اور اونچی ذات کے لوگوں کی جوتیاں سیدھی کرنا ہے۔ کچھ ایسا ہی سلوک کرموں کے ساتھ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ گاؤں کا چوہدری سب سے زیادہ اس کی تضحیک کرتا ہے

اقتباس

شرم کرو کرموں۔ میراثی ہو کر اپنے بچوں کو پڑھاتے ہو؟ کیا شادیوں میں ان سے لوگ ڈھول شہنائی کی بجائے کتابیں سنیں گے؟ کیوں  بگاڑتے ہو انہیں؟ کیوں نام مارتے ہو اپنے نسلی پیشے کا؟۔

طبقاتی نظام

چوہدری کے یہ الفاظ یا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ سوچ اس ذہنی پسماندگی کو واضح کرتی ہے جو ہمارے سماج کے اونچے درجے کے لوگوں کی ہے۔ قاسمی صاحب نے سماج کے ایک اور موضوع کی طرف نہایت عمدگی سے اشارہ کیا ہے کہ کیسے غریب  آدمی درجے میں کم ہونے کے سبب مار کھاتا ہے۔

سماجی نظام

کرموں جب قوالی میں اپنے استاد کے ساتھ گھٹنا ملا کر گانا شروع ہوتا ہے۔تو اس کے استاد کو اپنی جگہ کے لالے پڑ جاتے ہیں کہ کہیں مستقبل میں کرموں اس سے آگے نہ نکل جائے۔ اس اندیشے کے زیر اثر وہ کرموں کو اپنی پارٹی سے نکال دیتا ہے۔ یہ کون سا رویہ ہے جو ہمارے سماج کے لوگ اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ کیوں کسی کو اپنے سے زیادہ پھلتا پھولتا ہوا نہیں دیکھ سکتے؟ نہایت اہم سوال اس افسانے کے موضوع سے سر اٹھاتا ہے۔
کرموں سب کی مخالفت کے باوجود اپنے بچوں کو تعلیم دلوا کر اس قابل بنا دیتا ہے کہ اس کے بچے جوان ہو کر نوکری پر لگ جاتے ہیں اور اپنے باپ کرموں کو اتنے پیسے بھیجتے ہیں کہ کرموں قوالی گانے کا کام چھوڑ کر گھر پر آرام سے رہتا ہے اور لوگوں کے ساتھ بیٹھک لگاتا ہے۔
کرموں نے نہ کبھی اپنے پیشے پر شرمندگی محسوس کی نہ اس کے بچوں نے یہ شرم محسوس کی کہ ان کا باپ قوالی گاتا ہے اور لوگوں میں میراثی مشہور ہے۔ بلکہ وہ اپنی حق حلال اور محنت کی کمائے پر مطمئن ہیں۔ یہ وہ مثبت سوچ ہے جس کی ہمارے سماج کو ضرورت ہے۔ اور اسی کی طرف قاسمی صاحب نے اشارہ کیا ہے۔
افسانے میں جگہ جگہ کرموں کی دانش مندی اور مثبت سوچ نظر آتی ہے۔ وہ غریب ضرور ہے مگر اس نے کبھی  کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے اور دوسروں کا حق نہیں مارا۔ وہ ایک سیدھا سادہ سا بندہ ہے۔ چوہدری کے ہاتھوں کئی بار ذلیل ہونے  اور مار کھانے کے باوجود اس نے لڑائی جھگڑا نہیں کیا۔

تنقیدی جائزہ

چوہدری کی سوچ اور رویہ ہمارے سماج کے ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو غریب آدمی کو پلید سمجھتے ہیں۔ جن کے نزدیک غریب آدمی کی اوقات جوتی جیسی ہے۔ اس جوتی کو وہ پہننا تو ضروری سمجھتے ہیں مگر صرف پاؤں میں۔ افسانے میں جگہ جگہ چوہدری اپنے رویے اور عمل سے کرموں کو نیچا دیکھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ چوہدری نے خود کرموں کی خوشحالی اور ترقی کو قبول کیا اور نہ ہی لوگوں کو کرنے دیا۔  ہر بات میں کرموں کو چھوٹا اور نیچ دیکھانے اور منوانے کی کوشش کی۔ کرموں نے زکوٰۃ نکالی تو اس پر چوہدری نے قیامت آجانے سے تشبیہ دی اور ساتھ میں یہ پیشن گوئی بھی کر دی کہ دو سال میں وہ خود زکوٰۃ مانگے گا۔ بے چارے نے تو اس وقت کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے تھے جب وہ قوالی گاتا تھا۔ کرموں نے بیٹھک لگانے کا سوچا تو اس پر اسے باسٹھ جوتے لگوائے۔ بھلا یہ کون سی مساوات ہے؟ کرموں ووٹ دینے لگا تو اندراج میں س کے نام کے ساتھ ذات میراثی اور پیشہ گداگری لکھ دیا گیا۔ یہی ہمارے سماج کی وہ طبقاتی تقسیم ہے جس کی طرف قاسمی صاحب نے اشارہ کیا ہے کہ اگر کوئی کھاتے پیتے گھر کا بڑا آدمی ہو تو اس کے نام کے ساتھ چوہدری، ملک، وڈیرا اور نواب جیسے الفاظ لکھتے ہیں مگر جب کسی غریب حق حلال کی روزی کمانے والا ہو تو اسے میراثی اور گداگر لکھتے ہیں ۔ یہی وہ سماجی اور طبقاتی نظام ہے جو ہمارے سماج میں قائم ہے۔
چوہدری ایک کھوکھلا اور بودا انسان ہے۔ جو خوش قسمتی کہہ لو کہ اونچے گھر میں پیدا ہو گیا ہے۔ اسے سارا غرور بھی اسی بات کا ہے۔ وہ قدم قدم پر کرموں کی تضحیک کر کے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ کرموں اس سے درجے میں کم ہے۔ 

اقتباس

جوتے پر چاہے سنہرا کام ہوا ہو، رہے گا تو وہ جوتا ہی اور پاؤں ہی میں پہنا جائے گا۔ اس میراثی کے بچے کو میرے گاؤں میں رہنا ہے تو میراثی بن کر رہنا ہو گا۔
ایسے میں کرموں بھی قدم قدم پر اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ وہ انسان ہے اسے بھی جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا اس سماج کے دوسرے لوگوں کو ہے اس کی ویسی ہی عزت نفس ہے جیسی کسی دوسرے انسان کی ہے

اقتباس

 سیانوں سے  سنا ہے کہ مور بھی کوے ہی کی نسل میں سے ہے۔ صرف رنگ دار پر نکال لئے ہیں اور ناچنا سیکھ گیا ہے۔ 
افسانے کے ان دونوں اقتباسات سے سماج کے دو الگ الگ طبقوں کی سوچ واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے سماج کے لوگ کس ذہنی پستی اور بلندی پر کھڑے ہیں۔ 

تجزیہ

چوہدری اور کرموں کی شکل میں ہم اس سوچ کا یا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ طبقاتی تقسیم کا تقابل کر سکتے ہیں جو اس سماج ہی کے لوگوں کی وضع کردہ ہے۔ افسانے کے آخری حصے میں کرموں اور چوہدری کے درمیان کمبل کے لین دین سے اس تقسیم کی واضح طور پر وضاحت ہو جاتی ہے۔ کرموں کا بیٹا اپنے باپ کے لیے نہایت عمدہ اور ریشمی کمبل بھیجتا ہے۔ جس کی دھوم سارے گاؤں سے ہوتے ہوئے  چوہدری تک بھی پہنچ جاتی ہے اور ایک روز چوہدری کرموں سے وہ کمبل خرید کر اسے گھر کے ٹرنک میں یہ کہہ کر پھنکوا دیتا ہے کہ درجنوں پڑے ہیں اس طرح کے کمبل۔مگر میں دو پیسے کے میراثی کو ڈھائی تین سو روپے کا کمبل اوڑھے دیکھ نہیں سکتا۔ جوتے کو پاؤں ہی میں رہنا چاہیے۔ 
احمد ندیم قاسمی صاحب نے کس قدر ذہنی پستی اور منافقت دیکھائی ہے کہ گاؤں کا چوہدری دو پیسے کے میراثی سے لین دین تو کر سکتا مگر تین سو روپے کا کمبل اوڑھے نہیں دیکھ سکتا ہے۔ کیا یہ ہے انسان کا معیار؟ اس کی حیثیت؟ جوتے جیسی۔ جسے پاؤں میں ہی رہنا چاہیے۔ جس کی قیمت دو پیسے جیسی ہے۔ کیا یہ ہے اشرف المخلوقات؟ یہ موضوع ہمارے سماج کا ایک اہم موضوع اور بڑی برائی ہے۔ ہر گاؤں اور ہر شہر میں کرموں جیسے کئی غریب لوگ چوہدری جیسے اونچے درجے کے لوگوں کے ہاتھوں رسوا ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ کیا یہ ہے انسانوں کا معیار اور حیثیت؟ ایک بہت بڑا اور اہم موضوع قاسمی صاحب نے اس افسانے میں اٹھایا ہے کہ آخر ہم کیوں اپنے سے چھوٹے کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتے؟ 

Comments

Popular Posts

مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری

احمد ندیم قاسمی کا افسانہ سفارش

قدرت اللہ شہاب

طنز و مزاح

اردو ڈراما تاریخ و تنقید/ اردو ڈراما کے اجزائے ترکیبی

آپ بیتی کی تعریف

افسانہ الحمد اللّٰہ کا سماجی مطالعہ

افسانہ لارنس آف تھیلیبیا کا سماجی مطالعہ

مرزا غالب کا تعارف