Posts

Showing posts from November, 2023

Featured Post

noon meem rashid poetry

Image
ن م راشد  ابتدائی زندگی  نذر محمد راشد  نذر محمد راشد 1910ء میں ضلع گجرانوالہ کے قصبے علی پور چٹھہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ ن م راشد شاعری میں فارسی کا اثر بہت ہے۔ راشد نے شروع میں فارسی آمیزیت سے کام لیا یعنی ان کی شاعری میں فارسی کا رنگ نمایاں ہے۔ ان کے دادا فارسی شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی فارسی کا رنگ نظر آتا ہے۔ خاکسار تحریک سے جڑے رہے یہ تحریک آزادی کی تحریکوں میں سے ایک تحریک تھی۔ عنایت اللہ مشرقی نے اس کی بنیاد رکھی تھی مگر فکری اختلاف کی بنیاد پر بعد میں تحریک چھوڑ دی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے جڑے رہے۔ فوج کے لیے بھی خدمات پیش کی اسی وجہ سے مختلف ممالک کا دورہ بھی کیا۔ سب سے زیادہ ایران میں رہے۔ نیویارک میں بھی رہے۔ یو این او کے بھی ملازم رہے۔   شاعری کے مجموعے   ماورا 1941 میں شائع ہوئی  ایران میں اجنبی 1955 میں شائع ہوئی  لا انسان 1969 میں شائع ہوئی  گمان کا ممکن وفات کے بعد 1976 میں شائع ہوئی  راشد نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر بھی لکھی۔ ناول اور مضامین کے ترجمے بھی کیے۔  ماورا راشد کی کتاب ماورا جدید اردو شاعری

PEEF scholarship 2023

Image
PEEF scholarship 2023 اگر آپ میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کا امتحان سال میں پاس کیا ہے اور اپ کا تعلق درجہ ذیل میں سے کسی ایک کیٹگری میں سے ہے تو آپ سپیشل کوٹا تعلیمی  سکالرشپ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔  یتیم طلبہ و طالبات کے لیے جن کے والد وفات پا چکے ہوں  گریڈ ایک سے گریڈ چار کے سرکاری ملازمین کے بچے  اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور طالبات  سپیشل (معذور) طلبہ طالبات  دہشت گردانہ عملوں میں شہید ہونے والے سویلین کے بچے درخواست دینے کا طریقہ کار  اہل طلبہ اور طالبات درج ذیل پورٹل کے پتے پر آن لائن درخواست دے سکتے ہیں۔  https://student.peef.org.pk/Student انتباہ غلط معلومات فراہم کرنے یا نامکمل درخواست کی صورت میں درخواست مسترد تصور کی جائے گی اور درخواست گزار کسی بھی کاروائی کا مجاز نہ ہوگا۔ درخواست دینے کی آخری تاریخ  آن لائن درخواست جمع کروانے کی آخری تاریخ 31 جنوری 2023 ہے  

مرزا غالب کا تعارف

Image
                                              Ghalib      مرزا غالب                                       مرزا غالب کا تعارف پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے کوئی بتلائے کہ ہم بتلائے کیا جدید اردو نثر کا بانی غالب ہے غالب کی ابتدائی زندگی   دسمبر 1797 کو آگرہ میں چار گھڑی سورج نکلنے سے پہلے ایک بچے نے جنم لیا۔ جس کا نام مرزا اسد اللہ خان غالب رکھا گیا۔ مرزا غالب کے خطوط سے ہی غالب کی زندگی کے بارے میں بہت سی معلومات مل جاتی ہیں۔ غالب کے آباؤ اجداد ت رکمانستا ن کے ر ہنے والے تھے۔ پھر بعد میں ہجرت کر کے محمد شاہ کے دور میں وہ لوگ ہندوستان آئے۔ غالب نے یہ بات خود بھی بتائی ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کا پیشہ سپہ گری تھا یعنی کہ وہ فوج میں تھے۔ غالب کے پردادا کا نام ترسم خان تھا۔ ان کے بیٹے کا نام قوقان بیگ تھا اور یہ غالب کے دادا بھی تھے۔ انہوں نے ہی بعد میں آگرہ کے اندر سکونت اختیار کی۔ پھر ان کے ہاں چار بیٹوں کی اولاد کا ذکر ملتا ہے مگر نام صرف دو کے ہی سامنے آتے ہیں۔ عبداللہ بیگ خان اور نصراللہ بیگ خان عبداللہ بیگ خان کے ہاں تین اولادیں پیدا ہوئیں۔ سب سے پہلی اولاد بیٹی تھی۔ جس کا نام چھوٹ

مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری

Image
 مشتاق احمد یوسفی مشتاق احمد یوسفی کا تعارف  14 اگست 1923 کو مشتاق احمد یوسفی پیدا ہوا جے پور میں پیدا ہوئے ۔  ان کے والد کا نام عبدالکریم خان یوسفیر۔ مشتاق احمد یوسفی نے مسلم یونیورسٹی سے ایم اے فلسفہ میں تعلیم حاصل کی جو 1945 میں مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ ایم اے کے ساتھ ایل ایل بی کی ڈگری بھی مکمل مشتاق احمد یوسفی نے 1946 میں انڈین آرڈر اینڈ اکاؤنٹ سروس میں شمولیت اختیار کی۔ مشتاق احمد یوسفی کی بینائی شروع کرنا ہی خاص بات ہے۔ مشتاق احمد یوسفی 1950 ہجرت کر کے کراچی آئے اور انہوں نے اپنے گھر میں کام شروع کیا۔ مسلم کمرشل بینک، الائیڈ بینک اور ایچ بی ایل بینک میں بھی ملازم۔ اس کے بعد 1979 میں لندن گئے تو سب سے بڑے بینک بی سی آئی ادارے کے صدر بن گئے۔ 190 تک مشتاق احمد یوسفی نے اس ادارے میں ملازم کی اور ریٹائر ہو گئی۔ مشتاق احمد یوسفی کا سب سے پہلا مضمون صنف لاغر شائع ہوا۔ مرزا ادیب جو اس وقت رسالہ کے ادب لطیف کے ایڈیٹر تھے انہوں نے یہ مضمون واپس کر دیا تو مشتاق احمد یوسفی نے ویب مضمون رسالہ سویرا میں حنیف راما کے ایڈیٹر بھی۔ سویرا میں ان کا پہلا مضمون 1955 میں صنف لاغر کا نام شائع ہوا اور

طنز و مزاح

 اردو ادب میں طنز و مزاح سے کیا مراد ہے  زندگی زندہ دلی کا نام ہے  مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ انسان اور حیوان میں سب سے بڑا فرق ہنسی کا ہے۔ انسان ہنس سکتا ہے لیکن حیوان نہیں ہنستا۔ طنز و مزاح انسان کو سنجیدگی سے بچاتا ہے۔ طنز و مزاح کا مقصد معاشرے کو مستحکم بنیاد دینا ہے۔ جس معاشرے میں طنز و مزاح کا سلسلہ ہوگا۔ وہ معاشرہ زیادہ باشعور ہوگا اور وہ معاشرہ تندرست ہونے کے ساتھ ساتھ صحت مند بھی ہوگا۔ طنز و مزاح کی تعریف یہ ہے   ارسطو کے مطابق ہنسی سے مراد ہے کہ ہنسی کسی ایسی کمی یا بد صورتوں کو دیکھ کر معرض وجود میں آتی ہے جو درد انگیز نہ ہو۔ جرمن فلاسفر کانٹ کے مطابق ہنسی اس وقت نمودار ہوتی ہے جب کوئی چیز ہوتے ہوتے رہ جائے اور ہماری توقعات اچانک ایک بلبلے کی طرح پھٹ کر ختم ہو جائیں۔ شوپن ہاور لکھتے ہیں کہ ہنسی تخیل اور حقیقت کے مابین نہ ہمواری کے وجود کو اچانک محسوس کر لینے سے جنم لیتی ہے۔ سٹیفن کے مطابق مزاح کیا ہے؟ یہ زندگی کی ناہمواری کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فن کارانہ اظہار ہو جائے۔ طنز اور مزاح دو مختلف چیزیں ہیں۔ مزاح کو انگریزی میں Humour کہتے ہیں اور

اردو ڈراما تاریخ و تنقید/ اردو ڈراما کے اجزائے ترکیبی

  اردو ڈراما  ڈراما کا لفظی معنی ڈراما انگریزی لفظ ہے مگر اصل میں "Drao" یونانی لفظ کی بنیاد ہے۔ جب انگریزی میں آیا تو ڈرامہ بنا۔ اردو میں بھی یہی لفظ مستعار یعنی ادھار لیا گیا ہے۔ سنسکرت میں ڈرامے کے لیے درشیاکاؤ اور ہندی میں ڈراما کو روپک یا ناٹک کہا جاتا ہے۔  اردو ڈرامے کی تعریف و اقسام ڈرامے کی تعریف "ڈراما سے مراد ایسی نظم ہے جس کو دیکھایا اور دیکھا جاتا ہے". "ایسی نظم جس کو عملی شکل دی جا سکے". ڈاکٹر محمد اسلم قریشی ڈرامے کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ڈراما اسٹیج پر فطرت کی نقالی کا ایسا فن ہے جس میں اداکاراؤں کے ذریعے زندگی کے غیر معمولی اور غیر متوقع حالات کے عمل میں قوت ارادی کا مظاہرہ تماشائیوں کے روبرو ایک معین وقت اور مخصوص انداز میں کیا جاتا ہے۔ ڈرامے کی اقسام ڈرامے کی بنیادی طور پر دو قسمیں   المیہ  طربیہ المیہ سے مراد الم یعنی غم کو کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسا ڈراما ہے جس کا انجام غم پر ہو۔ المیہ کو انگریزی میں ٹریجڈی بھی کہا جاتا ہے۔   طربیہ طرب سے نکلا ہے جس کے معنی خوشی کے ہیں۔ اس سے مراد ایسا ڈراما ہے جس کا انجام خوشی پر ہو۔ طربیہ

قدرت اللہ شہاب

قدرت اللہ شہاب قدرت اللہ شہاب کی شخصیت  قدرت اللہ شہاب کا تعلق گلگت سے تھا۔ آپ 26 فروری 1917ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے گاؤں کا نام چمکور صاحب تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے ہی حاصل کی۔  سکول کی تعلیم امبالہ سے حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ انہوں نے ایم اے انگریزی میں کیا۔ انڈین سول سروس یعنی ائی سی ایس میں منتخب ہوئے۔ یعنی سی ایس ایس مقابلے کا امتحان جسے پہلے ائی سی ایس کہتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب پہلے مسلمان تھے جنہوں نے ائی سی ایس کو پاس کیا۔ کیونکہ آدھا کوٹا انگریزوں کا اور آدھا ہندوؤں اور مسلمانوں کا ہوتا تھا۔ قدرت اللہ شہاب نے بہار، اڑیسہ اور پنگال میں بھی ملازمت کی۔ قدرت اللہ شہاب قیام پاکستان کے بعد کشمیر کے پہلے جنرل سیکرٹری بنے۔ پھر گورنر جنرل غلام محمد کے سیکرٹری بنے۔ اس کے بعد سکندر مرزا کے بھی سیکرٹری رہے۔ پھر جنرل ایوب خان نے انہیں اپنا سیکرٹری مقرر کیا۔ اس کے بعد جب یحیی کا دور آیا تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ قدرت اللہ شہاب اقوام متحدہ کے ادارے یونسکو سے بھی کچھ عرصہ منسلک رہے۔ اسی دوران انہوں نے اسرائیل کا خفیہ دورہ بھی کیا۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ

آپ بیتی کی تعریف

اردو آپ بیتی کی تعریف  آپ بیتی کو خود نویسی سے بھی کہا جاتا ہے یعنی آٹو بائیو گرافی اسے سوانح عمری بھی کہا جاتا ہے۔سوانح عمری مکمل ہوتی ہے اور آپ بیتی نام مکمل ہوتی ہے۔ سوانح عمری مرے ہوئے لوگوں کی لکھی جاتی ہے۔ اس میں پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام واقعات درج کیے جاتے ہیں۔آپ بیتی اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا انسان ہے۔ آپ بیتی میں انسان اپنی زندگی کے حالات و واقعات اور ہر طرح کے پہلو کو بیان کرتا ہے جبکہ زبان عمری میں دوسرے انسان کے حالات اور واقعات یعنی اس نے زندگی میں کیا کچھ کیا۔وہ تمام واقعات لکھے جاتے ہیں آپ بیتی کے لیے شاعر یا ادیب ہونا ضروری نہیں ہے یعنی آپ بیتی کوئی بھی شخص لکھ سکتا ہے مگر اچھی آپ بیتی وہی لکھ سکتا ہے جس نے بھرپور زندگی گزاری ہو اور اس کی زندگی دلچسپ واقعات سے بھری ہوئی ہو۔ آپ بیتی میں انسان اپنی زندگی کے اچھے اور برے واقعات کو لکھتا ہے۔ جو کہ بڑی ہمت کا کام ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ آج تک کوئی آپ بیتی ایسی نہیں ہے جو سو فیصد سچ ہو یعنی اس میں بیان کیے جانے والے واقعات درست ہوں۔ آپ بیتی کو مسیحی دینیات میں کنفیشن کہا جاتا ہے۔ اردو میں اس کا مطلب اعترافات ہے یعن