افسانہ احسان اور عالاں
اگر عورت کے ہمت و حوصلے اور بہادری کی بات کی جائے تو اس کے لیے قاسمی صاحب کے افسانے احسان کی صبیحہ اور
افسانے عالاں میں موجود نسوانی کردار عالاں کی مثال پیش کی جائے تو چنداں غلط نہ ہو گا۔ جو اپنے اپنے حالات کا اکیلے ہی بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ ہمارے سماج میں ایسی بہت سی لڑکیاں اور خواتین موجود ہیں جو اکیلے اس سماج میں زندگی بسر کر رہی ہوتی ہیں کچھ بہادر اور بے خوف ہوتی ہیں اور کچھ طرح طرح کے خدشات کا شکار ہوتی ہیں۔
ا فسانےاحسان میں صبیحہ جو اپنے فالج زدہ باپ کا ساتھ ہونے کے باوجود اس سماج سے مختلف خدشات کا شکار ہے کہ اسے اکیلی لڑکی جان کر لوگ اس کے گھر محبت نامے سے لپٹے ہوئے پتھر اس کے گھر کی دہلیز پر پھینکے گے۔ رات کو اگر اسے گھر سے باہر جانا پڑا تو سڑک پر غنڈوں کے ہتھے چڑھ جائے گی۔ لوگ اس پر آوازیں کسیں گے۔ گدھ کی طرح اس کو نوچ کھائیں گے۔
یہ وہ خیالات ہیں جو ایک اکیلی لڑکی کو سوجھتے ہیں اور انہی حالات اور واقعات سے وہ گزرتی بھی ہے۔ اور یہ واقعات اور حالات ایک کھلی حقیقت ہیں صبیحہ جیسی بہت سے لڑکیاں اسی قسم کے حالات سے گزرتے ہوئے اس سماج میں زندگی کی گاڑی کو چلا رہی ہوتی ہیں۔
ایسے میں بہت سی لڑکیاں اپنے لیے کسی محرم مرد کا سہارا لینے کو ترجیح دیتی ہیں۔ صبیحہ بھی انہی لڑکیوں میں سے ایک ہے جو سماج کا تر نوالہ بننے کی بجائے شادی کرنے کا فیصلہ کرتی ہے ایسے میں اس کی سوچ بھی خاصی منفرد ہے وہ محبت کرنے والے اور شریف انسان کی خواہش کرتی ہے جو اس کے لیے قربانی دے سکے اور لالچی اور کم ظرف نہ ہو۔ اس حوالے سے بھی قاسمی صاحب ایک لڑکی کی نفسیاتی کیفیات کو بڑی عمدگی سے قلم بند کرتے ہیں۔
اسی طرح افسانہ عالاں کے نسوانی کردار عالاں کی بات کی جائے تو وہ خاصی منفرد اور دلچسپ خصوصیات کی مالک لڑکی ہے۔ وہ صبیحہ کی طرح اس سماج سے ڈر کر ایک گھر میں پردہ نشین ہو کر نہیں بیٹھتی بلکہ اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتی ہے۔ وہ اپنے باپ کے مرنے کے بعد اکیلی ہی حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے کبھی دوسروں کی چکی پیس کر۔ کبھی ان کا پانی بھر کر۔ کبھی ان کی مرچیں کوٹ کر تو کبھی چھتیں لیپ کر اپنا رزق حاصل کرتی ہے مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی ہے۔ وہ سماج کے بھیڑیوں کا شکار ہونے سے گھبرانے کی بجائے ان کی عقل ٹھکانے پر لگا دیتی ہے۔ اس کا جملہ کہ:"موچی کی بیٹی ہوں کھال اتار لیتی ہوں"۔
اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دیتا ہے۔ عالاں جن حالات کا سامنا کیا ہے اس کے بعد وہ کافی نڈر ہو چکی ہے۔ اسے اچھے سے معلوم ہے کہ اپنی حفاظت کس طرح سے کرنی ہے۔ افسانے کا اقتباس اس کی سوچ کو واضح کر دیتا ہے کہ:"روپیہ کما رہی ہوں ۔ آپ تو جانتے ہیں روپے والے لوگ غریب لڑکیوں کو خرید لیتے ہیں۔ میرے پاس روپیہ ہو گا تو مجھ پر نظر اٹھانے کی کسی کو مجال نہیں ہو گی۔ ہے کسی کی مجال؟"۔
صبیحہ کو لگتا ہے کہ اگر وہ کسی مرد سے شادی کر لے گی تو وہ اس سماج کے بھیڑیوں سے محفوظ رہے گی جبکہ عالاں کی سوچ یہ ہے کہ اگر وہ بہت سارا پیسہ کما لے گی تو کوئی بھی اس کو خرید نہیں سکے گا۔
یہ دونوں نسوانی کردار ہمارے سماج کی لڑکیوں کی عمدہ تصویر کشی کرتے ہیں۔
عالاں کا کردار ہمارے سماج کی ان عورتوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنا بوجھ خود اٹھاتی ہیں اور خود مختار بننا چاہتی ہیں تاکہ کوئی بھی ان کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ عالاں صبیحہ کی طرح اپنے پڑوسی اویس صاحب سے رشتہ ڈھونڈنے کی گزارش نہیں کرتی بلکہ کافی جرات مندی سے اپنے پڑوسی عارف میاں سے پیار کا اظہار کر دیتی ہے
۔قاسمی صاحب عورت کے ایک جیسے حالات کا شکار دو مختلف سوچ رکھنے والے روپ کا عمدگی سے نفسیاتی تجزیہ کرتے
ہیں۔
Comments
Post a Comment
If you want to read an article on a specific topic, let me know. I will write an article on this topic.