Featured Post

noon meem rashid poetry

ن م راشد 

noon meem rashid poetry


ابتدائی زندگی

 نذر محمد راشد 


نذر محمد راشد 1910ء میں ضلع گجرانوالہ کے قصبے علی پور چٹھہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ ن م راشد شاعری میں فارسی کا اثر بہت ہے۔ راشد نے شروع میں فارسی آمیزیت سے کام لیا یعنی ان کی شاعری میں فارسی کا رنگ نمایاں ہے۔ ان کے دادا فارسی شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی فارسی کا رنگ نظر آتا ہے۔ خاکسار تحریک سے جڑے رہے یہ تحریک آزادی کی تحریکوں میں سے ایک تحریک تھی۔ عنایت اللہ مشرقی نے اس کی بنیاد رکھی تھی مگر فکری اختلاف کی بنیاد پر بعد میں تحریک چھوڑ دی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے جڑے رہے۔ فوج کے لیے بھی خدمات پیش کی اسی وجہ سے مختلف ممالک کا دورہ بھی کیا۔ سب سے زیادہ ایران میں رہے۔ نیویارک میں بھی رہے۔ یو این او کے بھی ملازم رہے۔

 

شاعری کے مجموعے 


ماورا 1941 میں شائع ہوئی 

ایران میں اجنبی 1955 میں شائع ہوئی 

لا انسان 1969 میں شائع ہوئی 

گمان کا ممکن وفات کے بعد 1976 میں شائع ہوئی 


راشد نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر بھی لکھی۔ ناول اور مضامین کے ترجمے بھی کیے۔ 


ماورا


راشد کی کتاب ماورا جدید اردو شاعری میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اس مجموعے کے موضوعات اور اسالیب میں وہ باغیانہ تصورات شامل تھے جو اس زمانے کے نوجوانوں کے دماغوں میں پرورش پا رہے تھے۔ اس میں زمانے کی قدامت پرستی کے اعتبار سے موضوعات شامل تھے۔ جنس اور سیاست کے حوالے سے بھی موضوعات شامل تھے اسی وجہ سے اس کتاب کو باغیانہ کتاب بھی قرار دیا گیا۔ آج جب معاشرے میں جدیدیت اور جدید زندگی مستحکم ہو چکے ہیں تو یہ مجموعہ اس لیے لحاظ سے اتنا باغیانہ نظر نہیں آتا لیکن 1941 میں جب یہ کتاب شائع ہوئی تو اس نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا اور شدید رد عمل سامنے آیا۔ ایک رد عمل روایت پسند شعری حلقوں کی طرف سے بھی تھا کہ اس کتاب کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس سارے رد عمل کے باوجود اس کتاب نے جدید شاعری میں انقلاب پیدا کیا اور بہت سے شعراء جدیدیت کی طرف مائل ہوئے۔ ماورا ایک تاریخی حیثیت کی حامل کتاب ہے۔ راشد نے ماورا کے دیباچے میں تکنیک کے نئے تجربوں کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کرشن چندر نے اس کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ راشد کے مطابق بدلتے ہوئے تغیرات کے ساتھ ادب میں بھی تغیرات آتے ہیں اور آنے بھی چاہیے مگر ایشیائی ممالک میں یہ تغیرات کبھی کبھی آتے ہیں۔ راشد کے نزدیک اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو ملکی آب و ہوا اور حالات جس سے سستی پیدا ہوتی ہے دوسرا ہمارا مذہبی ماحول اگر ایک معین راستہ اختیار کر لیا جائے تو انسان کی اپنی حیثیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ گم ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ مغرب کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں انفرادی فکر کی نشوونما ممکن ہے جبکہ ہمارے ہاں سوچنے پر پابندی ہے۔ 

راشد کہتے ہیں کہ حالی وہ پہلا شاعر ہے جس نے طرز خیال میں انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی۔  راشد نے حالی کو اردو شاعری کا پہلا باغی قرار دیا ہے۔ بغاوت کے ایک مثال ن م راشد خود بھی ہے۔ 

جس دور میں راشد نے شاعری کی وہ دور عالمی جنگوں کا زمانہ ہے اور اس وقت ایک معاشی انتشار پھیلا ہوا ہے۔ راشد مشرق کی روح کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر ماتم نہیں کرتے۔ مشرق کی موت کا یہ تصور شاعر کو ایک احساس کمتری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ وہ اس سارے ماحول کو بدلنا چاہتے تھے۔ وہ اس مایوسی کی فضا کو اور غلامی کے دور کو بدلنا چاہتے تھے۔ 


رومانویت 


راشد کی شاعری میں رومانویت کا عنصر بہت زیادہ نمایاں ہے۔ اختر شیرانی رومانویت کے شاعر ہیں اور تمام شاعروں پر اختر شیرانی کی شاعری نے اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ اسی طرح راشد پر بھی فیض احمد فیض اور مجید امجد کی شاعری کے اثرات مرتب ہوئے۔ راشد نے شروع میں رومانویت اور پھر بڑے بڑے موضوعات پر شاعری کی۔ پھر رومانویت سے بغاوت کرنا شروع کرتے ہیں کیونکہ راشد حقائق کی بنا پر محبت کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ راشد کی محبت کا اپنا نظریہ ہے۔ وہ عورت کو مندر کی مقدس دیوی کہتے ہیں مگر پھر خود ہی اس نظریے سے بغاوت کرتے ہیں۔ فکری سطح پر اقبال کے بعد راشد پہلا بڑا رومانوی شاعر ہے۔ اسی سلسلے میں مروجہ بغاوت نظر آتی ہے۔ راشد نے رومانویت سے بغاوت کی ہے یہ بغاوت جنس کے حوالے سے ہے۔ 

 رومانیت میں تقدس کا پہلو زیادہ ہوتا ہے مگر راشد کی ایک نظم پر بہت زیادہ تنقید ہوئی اور راشد پر فحاشی کا الزام لگایا گیا۔ راشد کے ہاں جب جنس کا پہلو سامنے آیا تو اس کے مقصد کی طرف کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ ان کی نظم انتقام پر فحاشی کا الزام لگا۔ پستی کا الزام بھی لگا۔ اس میں جنس ایک ذہنی ٹول کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس نظم کو سمجھنے کے لیے فرائیڈ کا سکول اف تھاٹ سمجھنا ضروری ہے۔ 


انتقام


ن م راشد


اس کا چہرہ اس کے خد و خال یاد آتے نہیں 


اک شبستاں یاد ہے 


اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس 


فرش پر قالین، قالینوں پہ سیج 


دھات اور پتھر کے بت 


گوشۂ دیوار میں ہنستے ہوئے


اور آتشداں میں انگاروں کا شور 


ان بتوں کی بے حسی پر خشمگیں 


اجلی اجلی اونچی دیواروں پہ عکس 


ان فرنگی حاکموں کی یادگار 


جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں 


سنگ بنیاد فرنگ


اس کا چہرہ اس کے خد و خال یاد آتے نہیں 


اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے 


اجنبی عورت کا جسم


میرے ہونٹوں نے لیا تھا رات بھر 


جس سے ارباب وطن کی بے حسی کا انتقام 


وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے


 مرثیت 


مسلمانوں کے حالات دیکھ کر راشد بہت زیادہ دکھی ہیں۔ کئی لوگوں نے ان پر فرار کا الزام بھی لگایا۔ یعنی وہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار چاہتے ہیں لیکن دکھی بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ان کی نظم خود کشی اور رقص بھی ہے کرشن چندر کہتے ہیں کہ یہ مرثیت گرد و پیش کے حالات کی آئینہ دار ہے۔ اس سے جھٹلایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس کی تضحیک کی جا سکتی ہے۔


رقص

ن م راشد


اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے 


زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں 


ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو 


رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی 


ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے میرا 


اور جرم عیش کرتے دیکھ لے


اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے 


رقص کی یہ گردشیں 


ایک مبہم آسیا کے دور ہیں 


کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا جاتا ہوں میں


جی میں کہتا ہوں کہ ہاں


رقص گاہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر 


کلفتوں کا سنگ ریزہ ایک بھی رہنے نہ پائے 


اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے 


زندگی میرے لیے 


ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں 


اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں 


ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب 


جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں 


تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں 


تو مری ان آرزؤں کی مگر تمثیل ہے 


جو رہیں مجھ سے گریزاں آج تک


اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے 


عہد پارینہ کا میں انساں نہیں 


بندگی سے اس در و دیوار کی 


ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں 


جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں 


زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں


اس لیے اب تھام لے 


اے حسین و اجنبی عورت مجھے اب تھام لے



تشبیہات و استعارات 


راشد کی شاعری میں موضوعات کے علاؤہ ہیت کے اعتبار سے بھی بغاوت نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں نئے موضوعات کے ساتھ ساتھ نئی تشبیہات نئی الفاظ نئے استعارات اور نئی تراکیب بنانے کی کوشش کی ہے۔ راشد بنے بنائے راستوں سے گریز کرتے ہیں اور اپنے لیے نئی تشبیہات اور استعارات پیدا کرتے ہیں۔ جس کی ایک مثال ان کی نظم بے کراں رات کے سناٹے میں ہے۔


بے کراں رات کے سناٹے میں

ن م راشد


تیرے بستر پہ مری جان کبھی 


بے کراں رات کے سناٹے میں 


جذبہ شوق سے ہو جاتے ہیں اعضا مدہوش 


اور لذت کی گراں باری سے 


ذہن بن جاتا ہے دلدل کسی ویرانے کی 


اور کہیں اس کے قریب 


نیند، آغاز زمستاں کے پرندے کی طرح 


خوف دل میں کسی موہوم شکاری کا لیے 


اپنے پر تولتی ہے، چیختی ہے 


بے کراں رات کے سناٹے میں


تیرے بستر پہ مری جان کبھی 


آرزوئیں ترے سینے کے کہستانوں میں 


ظلم سہتے ہوئے حبشی کی طرح رینگتی ہیں


ایک لمحے کے لیے دل میں خیال آتا ہے 


تو مری جان نہیں 


بلکہ ساحل کے کسی شہر کی دوشیزہ ہے 


اور ترے ملک کے دشمن کا سپاہی ہوں میں 


ایک مدت سے جسے ایسی کوئی شب نہ ملی 


کہ ذرا روح کو اپنی وہ سبکبار کرے


بے پناہ عیش کے ہیجان کا ارماں لے کر 


اپنے دستے سے کئی روز سے مفرور ہوں میں


یہ مرے دل میں خیال آتا ہے 


تیرے بستر پہ مری جان کبھی 


بے کراں رات کے سناٹے میں


راشد نے اپنی نظموں میں داخلی واردات کے لیے سیاسی اور خارجی واردات استعمال کی ہیں۔  تشبیہ کی خوبصورتی نے موضوع میں وسعت اور گہرائی پیدا کی ہے۔ تشبیہوں اور استعاروں کا نیا پن جگہ جگہ نظر آتا ہے۔

راشد کے ہاں بغاوت کئی سطحوں پر نظر آتی ہے۔ ہیت اور اسلوب کی سطح پر بھی بغاوت نظر آتی ہے۔ فکر اور فن دونوں سے مل کر اسلوب بنتا ہے۔ پہلی سطح پر جو بغاوت نظر آتی ہے وہ ہیتوں کی سطح پر بغاوت ہے۔ راشد قدیم ہیتوں اور قدیم اصناف سخن کے باغی ہیں۔ وہ اردو ادب میں نئی ہیتیں رائج کرنا چاہتے تھے۔ یہ بغاوت راشد کو ایک جدت پسند شاعر بنا دیتی ہے اور اس بغاوت کے لیے راشد کو بہت زیادہ تنقیدی رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ راشد کی یہ بغاوت اردو شاعری میں انقلاب کا سبب بنی۔ اپنے پہلے مجموعے ماورا میں ہی راشد نئی ہیتوں کی طرف سفر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 


فن اور فکر 


راشد فکری اور فنی دونوں اعتبار سے شاعر ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ ایک ایسا شاعر جو پہلے سے طے شدہ حدود کو طول دیتا ہے۔ راشد نے نئے موضوعات اور چونکا دینے والے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور اخلاقی جرات کے ساتھ ان موضوعات کو قلم بند کیا ہے۔ فنی اعتبار سے نئی تشبیہات اور تراکیب استعمال کی ہیں۔ جدید نظم نگاری کا تجربہ محض فیشن کے لیے نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے اس کے عہد کے شاعروں کی مدلل تحریک موجود تھی۔ راشد نے جو نئی تبدیلیاں اس عہد میں آرہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کو ادب کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے لہذا ماورا کو سمجھنا ضروری ہے۔ ماورا کی ابتدائی نظموں میں راشد کا لہجہ بہت رومانوی ہے اور نظم کی شکل و صورت میں ابتدا میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر 


سوچتا ہوں بہت زیادہ اور معصوم ہے وہ

میں اس کو شناسائے محبت نہ کروں 

 روح کو اس کی اسیر غم الفت نہ کروں

 اس کو رسوا نہ کروں وقف مصیبت نہ کروں


نظم رخصت کے اشعار 


میں نالائے شبیر کی مانند اٹھوں گا 

 فریاد اثر گیر کی مانند اٹھوں گا 

وقت سفر مجھ کو نہیں روک سکے گی

 پہلو سے تیرے تیر کی مانند اٹھوں گا 


یہ اشعار پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ راشد رومانویت کے حسار سے باہر آتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پھر وہ نئی ہیتوں کی طرف بڑھ جاتے ہیں انسان، خواب کی بستی، فطرت اور عہد نو کا انسان اور ستارے وہ نظمیں ہیں جس میں راشد کی فطرت کے مناظر کی طرف دلچسپی نظر آتی ہے۔

راشد کی شاعری کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں گرد و پیش سے گھبرا کر کہیں اور جانے کی تمنا بھی نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں جو کشمکش نظر آتی ہے وہ جنس گناہ اور ثواب کے حوالے سے ہے۔

 سلیم احمد کا مضمون اس حوالے سے بہت اہم ہے گناہ اور ثواب کی کشمش کے حوالے سے وہ بیان کرتے ہیں کہ 

راشد افلاطونی عشق تصور کو توڑ دیتے ہیں اور ارضی حقائق کو بنیاد بناتے ہیں۔

 

گناہ  ن م راشد


آج پھر آ ہی گیا 


آج پھر روح پہ وہ چھا ہی گیا 


دی مرے گھر پہ شکست آ کے مجھے


ہوش آیا تو میں دہلیز پہ افتادہ تھا 


خاک آلودہ و افسردہ و غمگین و نزار 


پارہ پارہ تھے مری روح کے تار 


آج وہ آ ہی گیا 


روزن در سے لرزتے ہوئے دیکھا میں نے 


خرم و شاد سر راہ اسے جاتے ہوئے 


سالہا سال سے مسدود تھا یارانہ مرا 


اپنے ہی بادہ سے لبریز تھا پیمانہ مرا 


اس کے لوٹ آنے کا امکان نہ تھا 


اس کے ملنے کا بھی ارمان نہ تھا 


پھر بھی وہ آ ہی گیا 


کون جانے کہ وہ شیطان نہ تھا 


بے بسی میرے خدا وند کی تھی


راشد نے اپنے نظم میں گناہ کو شکست کا نام دیا ہے۔ یہاں پر جنس کا ایک بے باک اظہار بھی ہوتا ہے۔ تاہم اس نظم کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ یہیں سے راشد کی بغاوت کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ اکثر نقادوں نے اسے بغاوت کہا ہے وزیر آغا نے بغاوت کی ایک مثال راشد کو کہا ہے۔ بغاوت سے فرار شاعری میں اس سے مراد کئی سطحوں پر بغاوت ہو سکتی ہے۔ کئی شعراء کے افکار میں بغاوت ہوتی ہے۔ یعنی ایک ایسی جرات اور توانائی ہے جو بنے بنائے دائروں کو قبول نہیں کرتی۔ چنانچہ شاعر ان دائروں کو توڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی لیے اسے باغی شاعر قرار دیا گیا ہے۔ بغور دیکھا جائے تو باغی شاعر زندگی کی ایک نئی ترتیب تلاش کر رہا ہوتا ہے اور زندگی میں ایک نیا پن لانے کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ بغاوت کے نقطے کو سمجھنا ضروری ہے۔ قدیم سانچوں کے خلاف آواز اٹھانا اور جدت کے نئے پیرائے تلاش کرنا باغی شاعر کا مقصد ہوتا ہے۔ جب تک زندگی کے قدیم سانچوں کو توڑا نہیں جائے گا اس وقت تک نئی زندگی کا ظہور ممکن نہیں ہے۔ عام طور پر جب باغی شاعر کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے ایک ایسا شاعر مراد لیا جاتا ہے جس نے زندگی میں عملی طور پر بغاوت کی ہو اور عام طور پر اس لفظ سے سیاسی بغاوت ہمارے ذہن میں آتی ہے لیکن بغاوت کا دائرہ صرف سیاست تک نہیں ہے۔ بنیادی طور پر خیالات اور افکار کی بھی بغاوت ہوتی ہے جو کسی شاعر کو باغی شاعر کہنے پر اکساتی ہے اور لازمی طور پر اس کا تعلق شاعر کی زندگی سے نہیں ہوتا۔

 راشد نے جس تسلسل کے ساتھ آزاد نظم کو اپنایا ہے اس تسلسل سے کسی اور نظم کو نہیں اپنایا۔ راشد اپنی کتاب ماورا ہی سے نئی ہیتوں میں سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے سانٹ  معری اور پھر آزاد نظموں کی طرف آگئے جو اس زمانے میں بڑی ہیتی بغاوت تھی کیونکہ اس زمانے میں آزاد نظم میں کہنا شاعری کو مسخ کرنے کے سازش سمجھی جاتی تھی۔ بغاوت کی دوسری سطح موضوعات اور افکار کی ہے۔  راشد نے پہلی بغاوت ہیت اور دوسری موضوعات اور افکار کی ہے۔


سیاست کا عنصر 


نون میم راشد نے اقتصادی اور سیاسی پہلوؤں کی طرف خاص توجہ دی۔ راشد نے جن موضوعات پر بات کی ہے وہ آج بھی دنیا کے بہت بڑے موضوع ہیں پطرس بخاری نے انہیں شاعر ایشیا کا خطاب دیا۔ تیل کے سوداگر نظم سیاسی نظموں میں سے ایک نظم ہے۔ جس میں راشد نے انگریزوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ کس طرح وہ لوگ سوداگر کا روپ لے کر آئے اور ہمیں تباہ و برباد کر گئے۔ مشرقی ممالک کے تیل کے ذرائع پر قبضہ کرنے کے لیے انگریزوں نے چالیں چلی۔ نظم کیمیا گر اور وزیر چنیں اردو کی سیاسی نظموں میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ راشد نے طنز کے لیے ان نظموں میں حکایت اور داستان کا انداز اپنایا ہے یعنی کہ الف لیلہ جیسی داستانوں والا انداز اختیار کیا ہے۔ نظم ایران میں اجنبی میں راشد نے شاعری کے اس لہجے کو مہارت سے استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ مزید نظمیں بھی سیاسی رنگ لیے ہوئے ہیں مثلا انقلابی سومنات اور نمرود کے خدائی وغیرہ ان نظموں میں راشد کا ڈرامائی لب و لہجہ آگے چل کر ایران میں اجنبی سے آگے چل کر لامساوی انسان اور گماں کا ممکن کتاب تک پھیل گیا ہے  اس سلسلے میں حسن کوزہ گر اور لامساوی انسان ان کی بہترین مثالیں ہیں۔ 


نظم حسن کوزہ گر 


اس میں بغداد کا ماحول دکھایا گیا ہے۔ جس میں ایک کوزہ بنانے والے فنکار کی کہانی زبانی بیان کی گئی ہے۔ اس نظم میں المیہ یہ ہے کہ کوزہ گر شادی شدہ ہے مگر اس کے باوجود وہ کسی اور لڑکی سے محبت کر بیٹھتا ہے۔ اس نظم کے وہ ٹکڑے جہاں کوزہ گر کی بیوی اسے سمجھا رہی ہے وہ حصہ بہت اہم ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ راشد انسانی جذبات سے کتنی گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ بعض ناقدین کے نزدیک یہ راشد کی اعلی ترین نظم ہے۔ یہ نظم وقت جگہ اور فن کی کشمکش سے بھری ہوئی ہے۔ وہ پہیہ جس پر مٹی کا پیالہ گھومتا ہے اسے وقت سے تشبیہ دی گئی ہے یعنی وقت کے گھومنے اور چلنے سے مراد لیا گیا ہے۔ انسان کو مٹی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ نظم جب منظر عام پر آئی تو نہایت مقبول ہوئی۔ اس نظم نے راشد کے اپنی تخلیقی شعور میں بھی ایسی جگہ بنائی کہ اس پر راشد نے مزید تین نظمیں لکھیں اور گمان کا ممکن کتاب میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب ان کی وفات کے بعد منظر عام پر آئی۔ راشد نے اگلے حصوں میں اس کہانی کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے یہاں تک کہ نظم کے اختتام پر حسن مر جاتا ہے اور اس کی محبوبہ بھی نہیں رہتی مگر صدیوں بعد جب اس شہر کی کھدائی ہوتی ہے وہاں سے حسن کے بنائے ہوئے برتن نکلتے ہیں اور وہاں بھی ایک حسن ہے جو برتن بنا رہا ہے اور اسے بھی محبت ہے۔ یوں ایک تسلسل کے ساتھ نظم ڈرامائی عناصر پر مشتمل اختتام کی طرف بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح نظم اندھا کباڑی بھی انسانی نفسیات کو نفسیاتی الجھنوں کے حوالے سے نہایت خوبصورت نظم ہے۔ اس نظم میں معاشرے کے بہت بڑے المیے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس نظم میں بھی کردار کے مکالمے اور خود کلامی کا عنصر نمایاں ہے۔ کردار نگاری راشد کا مشہور فنی حربہ ہے اس حوالے سے پطرس نے لکھا تھا کہ یہ ہمہ گیری کی جدید شاعری کا اہم کارنامہ ہے۔ راشد نے مکالمے کو جس طرح بہت تکلفی سے نبھایا ہے وہ یقینا پڑھنے والوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ راشد کے کلام کا مطالعہ یقینا پطرس کی اس رائے سے اتفاق کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ 


ایران میں اجنبی 


راشد نے اس کتاب میں اپنی نظموں کو موضوع کے اعتبار سے ایک وحدت میں پرویا ہے اور یہ موضوع جنگ کے درمیان میں ایرانی زندگی کو بیان کرتے ہیں۔ کیونکہ راشد کو دوسری جنگ عظیم کے دوران ایران کو دیکھنے کا موقع ملا اور وہ ایران سے تخلیقی سطح پر کچھ اس طرح متاثر ہوئے کہ انہوں نے ایران کے بارے میں ناول لکھنے کا منصوبہ بنایا۔ ایران میں اجنبی جذبات کی کشمکش کے اس تجربے کی کوشش ہے جو خاص سیاسی حالات کی پیدا کردہ ہے۔ یہ بکھرے ہوئے نفوس اس زمانے کے سیاست کے پردے پر بنائے گئے ہیں جن میں انفرادی جذبات نے محض کشیدہ کاری کی گئی ہے۔ اس کتاب کا جو دوسرا حصہ ہے وہ تیرہ نظموں پر مشتمل ہے۔ ان نظموں کو کینتوز بھی کہتے ہیں۔ اس میں الگ الگ نظمیں ہوتی ہیں مگر ایک موضوع کی وحدت میں پروئی ہوتی ہیں۔ ان سب نظموں میں متعدد کردار ہیں ان کرداروں پر صیاد کا سایہ پڑھ رہا ہے۔ ان نظموں میں راشد نے افسانوی اور ڈرامائی انداز اختیار کیا ہے یعنی چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں۔ شارٹ کرداروں کی مدد سے باتیں کی ہیں۔ یہ ہماری جدید نظم میں ایک ایسا تجربہ ہے جو راشد کے ساتھ منسوب ہے۔ راشد نے ان نظموں کو کینتوز کہا ہے کینتوز بنیادی طور پر یورپ کی نظم گوئی کا انداز ہے۔ یہ طویل نظم ہوتی ہے جسے ٹکڑوں میں بانٹا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے مشہور امریکی انزرا پونڈ نے اسی انداز کی ایک نظم لکھی ہے جو بظاہر الگ الگ نظموں پر مشتمل ہے لیکن وہ تمام مل کر ایک مکمل نقش بھی بناتی ہیں۔ راشد کی شاعری میں ڈرامائی اور افسانوی عناصر پہلے بھی موجود تھے مثلا انتقام اور خودکشی نظم میں یہ عناصر نمایاں ہے۔ ان نظموں کے منظر عام پر انے کے بعد راشد پر فحاشی کے الزامات لگے تو راشد نے یہی جواب دیا کہ ان نظموں کو شاعر کی ذات پر لاگو نہ کیا جائے بلکہ یہ کرداروں کی نظمیں ہیں چونکہ ماورا میں اس طرح کی کرداری نظموں سے قاری کا واسطہ پہلے پہل پڑا تھا تو اس لیے وہ اس کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پائے مگر ایران میں اجنبی کی وہ نظمیں جو ایران کی زندگی کے متعلق ہیں ان میں کردار چونکہ واضح طور پر سامنے آتے ہیں اس لیے ان کو سمجھنے میں دقت نہیں ہوئی۔ ان ساری باتوں کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی شاعر کی حقیقی مفہوم تک پہنچنے کے لیے اس کے علیحدہ کی پہچان بہت ضروری ہے۔ 

پطرس بخاری نے ایران میں اجنبی کتاب کا دیباچہ لکھتے ہوئے کرداری خصوصیت کی طرف توجہ دلوائی ہے۔ پطرس یہ بھی کہتے ہیں کہ ان نظموں کو پڑھتے ہوئے انیسویں صدی کے مشہور انگریزی شاعر براؤنگ کی یاد تازہ ہوتی ہے کیوں کہ کرداری نظموں کا حوالہ براؤنگ سے منسوب ہے۔


ایلیٹ کی شاعری کی تین آوازیں 


اس مضمون کا ترجمہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے کیا ہے۔ مضمون کا نام شاعری کی تین آوازیں ہیں۔ جس میں ایلیٹ کی شاعری کی تین آوازیں گنوائی گئی ہیں۔ پہلی آواز میں شاعر اپنے آپ سے خطاب کرتا ہے یعنی خود کلامی کرتا ہے۔ یہ زیادہ تر رعنائی شاعری ہوتی ہے۔ دوسری آواز یا دوسرا لہجہ خطابیہ شاعری ہے۔ تیسری آواز میں شاعر ایک کردار کو سامنے لاتا ہے اور اس کردار کی زبان سے بولتا ہے راشد کی شاعری میں یہ تینوں آوازیں موجود ہیں۔ خود کلامی خطابہ اور کردار راشد کی شاعری میں یہ تینوں باتیں موجود ہیں لیکن ایران میں یہ اجنبی اور باقی دو مجموعوں کی بعض نظموں میں ڈرامائی انداز غالب نظر اتا ہے۔ لا مساوی انسان کی پہلی نظم حسن کوزہ گر جس میں کردار بھی ہیں اور ڈرامائی انداز بھی ہے۔ یہ انداز ایران میں اجنبی میں زیادہ ملتا ہے۔ اس میں راشد مختلف کردار سامنے لاتے ہیں اور ان کے مکالمے سنواتے ہیں۔ ان کی خود کلامیوں کو سامنے لاتے ہیں اور ان کرداروں کی گفتگو کو بیان کرتے ہیں۔ اس گفتگو میں ایران کی تلخیوں اور جنگ کی زد میں آئے ہوئے لوگوں اور ملک کی اخلاقی حالت کی تصویر کشی ملتی ہے۔ راشد نے اس ڈرامائی انداز میں بعد کی شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ایران میں اجنبی میں کے موضوعات سیاست کے حوالے سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے ایران کا تجزیہ کرتے ہوئے اقتصادی اور سیاسی پہلوؤں کی طرف خاص توجہ کی ہے۔




 

Comments

Popular Posts

مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری

احمد ندیم قاسمی کا افسانہ سفارش

قدرت اللہ شہاب

طنز و مزاح

اردو ڈراما تاریخ و تنقید/ اردو ڈراما کے اجزائے ترکیبی

آپ بیتی کی تعریف

افسانہ الحمد اللّٰہ کا سماجی مطالعہ

افسانہ لارنس آف تھیلیبیا کا سماجی مطالعہ

مرزا غالب کا تعارف

افسانہ جوتا کا سماجی مطالعہ