Posts

Showing posts from December, 2023

Featured Post

noon meem rashid poetry

Image
ن م راشد  ابتدائی زندگی  نذر محمد راشد  نذر محمد راشد 1910ء میں ضلع گجرانوالہ کے قصبے علی پور چٹھہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ ن م راشد شاعری میں فارسی کا اثر بہت ہے۔ راشد نے شروع میں فارسی آمیزیت سے کام لیا یعنی ان کی شاعری میں فارسی کا رنگ نمایاں ہے۔ ان کے دادا فارسی شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی فارسی کا رنگ نظر آتا ہے۔ خاکسار تحریک سے جڑے رہے یہ تحریک آزادی کی تحریکوں میں سے ایک تحریک تھی۔ عنایت اللہ مشرقی نے اس کی بنیاد رکھی تھی مگر فکری اختلاف کی بنیاد پر بعد میں تحریک چھوڑ دی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے جڑے رہے۔ فوج کے لیے بھی خدمات پیش کی اسی وجہ سے مختلف ممالک کا دورہ بھی کیا۔ سب سے زیادہ ایران میں رہے۔ نیویارک میں بھی رہے۔ یو این او کے بھی ملازم رہے۔   شاعری کے مجموعے   ماورا 1941 میں شائع ہوئی  ایران میں اجنبی 1955 میں شائع ہوئی  لا انسان 1969 میں شائع ہوئی  گمان کا ممکن وفات کے بعد 1976 میں شائع ہوئی  راشد نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر بھی لکھی۔ ناول اور مضامین کے ترجمے بھی کیے۔  ماورا راشد کی کتاب ماورا جدید اردو شاعری

افسانہ لارنس آف تھلیبیا

Image
قاسمی صاحب افسانہ لارنس آف تھلیبیا  میں بھی مرد کا کچھ اسی طرح کا روپ دیکھاتے ہیں۔ ملک خدا بخش جیسے بہت سے مرد آئے روز غریب مزاروں کی بہن بیٹیوں کو اپنی درندگی کی بھینٹ چڑھاتے رہتے ہیں رنگی جیسی بہت سی لڑکیاں ان کی حیوانیت کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔ اسی افسانے کے آغاز میں خدا بخش کے باپ کا کردار بھی ابھرتا ہے جو بڑی بےدردی سے مسکین نامی ایک غریب لڑکے کو اس وقت تک پیٹتا رہتا ہے جب تک کہ اس کے ہاتھ تھک نہیں جاتے ہیں۔ مسکین جو پانچ وقت کا نمازی اور مؤذن ہے۔ اس کا کردار بڑا بھولا بھالا اور شریف سا ہے۔ کافی بری طرح سے مار کھانے کے باوجود بھی مسکین اذان پڑھتے ہوئے کھڑا ہو جاتا ہے۔ جو اس کے صبر و تحمل کو واضح کرتے ہوئے مرد کے ایک مثبت رخ کو ثابت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سماج کے ان بے بس غریب لوگوں کی نمائندگی بھی کرتا ہے جو بے بسی اور لاچارگی سے استحصال کرنے والوں کے ہاتھوں پستے رہتے ہیں۔ جاگیردارانہ نظام پر چوٹ کرتے ہوئے قاسمی صاحب رنگی اور مسکین کے کردار کے ذریعے غریب آدمی کو  پامال ہوتے ہوئے دیکھاتے ہیں۔  

افسانوں فیشن مامتا اور پاؤں کا کانٹا گھر سے گھر تک سلطان میں عورت کا سماجی مطالعہ

Image
احمد ندیم قاسمی کے افسانوں فیشن مامتا اور پاؤں کا کانٹا گھر سے گھر تک میں عورت کا سماجی مطالعہ بھیکارن کا لفظ سن کر ہمارے ذہن میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے۔ گرد سے اٹے جسم اور ایک خستہ حال عورت کا سراپہ سامنے آتا ہے۔ جو ہاتھ پھیلائے بھیک مانگتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر قاسمی صاحب نے اپنے افسانے "پہاڑوں کی برف " میں ایک منفرد انداز میں عورت کے اس سماجی کردار کو جگہ دی ہے۔ رومانویت کا تڑکا لگاتے ہوئے ایک بھیکارن کے حسن کو وینس، سائیکی اور افروڈائٹ کے پیکر حسن کے مماثل کیا ہے۔ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اپنے گھر کے دروازے پر۔ دکانوں پر اور بازاروں کے چوراہوں پر مختلف مانگنے والی عورتوں کو دیکھتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے اس افسانے میں عورت کے اسی سماجی کردار کو اپنے منفرد انداز میں موضوع گفتگو بنایا ہے "افسانہ "فیشن ہم اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے کہ جہاں راہ چلتے ہوئے لڑکیوں کو مختلف لڑکوں کی طرف سے اوچھے فقروں اور گندی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہی پر ایسی لڑکیاں بھی پائی جاتی ہیں جو بڑے زور و شور سے کسی نا کسی کی محبت کے چکر میں پڑ کر خود کو تباہ کر بیٹھتی ہیں افسانہ "فیشن&qu

افسانہ ماسی گل بانو

Image
ماسی گل بانو  ق ا سمی صاحب کے افسانے  ماسی گل بانو کے نسوانی کردار گل بانو کی بات کی جائے تو یہ کردار خاص اہمیت  کا  حامل ہے۔ گل بانو کا کردار ہمارے سماج کی ان عورتوں کی نمائندگی کرتا ہے جن کی شادی نہ ہونے پر وہ ذہنی  بے توجہی اور نفسانی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔  گل بانو سے ماسی گل بانو تک کا سفر خاصا تکلیف دہ ہے۔ گل بانو ہمارے سماج کی ان لڑکیوں کی نمائندگی کرتی ہوئی نظر آتی ہے جن کی کسی نہ کسی وجہ سے شادی ٹوٹ جاتی ہے مگر ذلت اور اذیت کے بعد وہ جس جسمانی اور  ذہنی توڑ پھوڑ کا شکار ہوتی ہیں اسے غیر تعلیم یافتہ اور جاہل لوگ اس حالت کو جنات کے اثرات ہو جانے سے  منسوب کرتے ہیں۔ افشاں ملک اپنی کتاب افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی: آثار و افکار میں لکھتی ہیں اس افسانے میں جنسی گھٹن کے در عمل میں پیدا ہوئی ذہنی الجھن یا دماغی اختلال کو مسلم معاشرے کے غیر تعلیم یافتہ متوسط یا نچلے متوسط طبقوں میں جس طرح جنات کے اثرات جیسے توہمات کے حوالے کر کے مطمئن  ہونے کی جو روایت چلی آ رہی ہے اس ہر احمد ندیم قاسمی صاحب نے بہت پر اثر ڈھنگ سے قلم اٹھایا ہے ۔ گل بانو کا منگیتر جس کی شادی کے دن ملنے والی خبر گ

افسانہ احسان اور عالاں

Image
 افسانہ  احسان  اور  عالاں     اگر عورت کے ہمت و حوصلے اور بہادری کی بات کی جائے تو اس کے لیے قاسمی صاحب کے افسانے احسان  کی صبیحہ اور  افسانے عالاں میں موجود نسوانی کردار عالاں کی مثال پیش کی جائے تو چنداں غلط نہ ہو گا۔ جو اپنے اپنے حالات کا اکیلے ہی بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ ہمارے سماج میں ایسی بہت سی لڑکیاں اور خواتین موجود ہیں جو اکیلے اس سماج میں زندگی بسر کر رہی ہوتی ہیں کچھ بہادر اور بے خوف ہوتی ہیں اور کچھ طرح طرح کے خدشات کا شکار ہوتی ہیں ۔ ا   فسانے احسان میں صبیحہ جو اپنے فالج زدہ باپ کا ساتھ ہونے کے باوجود اس سماج سے مختلف خدشات کا شکار ہے کہ اسے اکیلی لڑکی جان کر لوگ اس کے گھر محبت نامے سے لپٹے ہوئے پتھر اس کے گھر کی دہلیز پر پھینکے گے۔ رات کو اگر اسے گھر سے باہر جانا پڑا تو سڑک پر غنڈوں کے ہتھے چڑھ جائے گی۔ لوگ اس پر آوازیں کسیں گے۔ گدھ کی طرح اس کو نوچ کھائیں گے۔  یہ وہ خیالات ہیں جو ایک اکیلی لڑکی کو سوجھتے ہیں اور انہی حالات اور واقعات سے وہ گزرتی بھی ہے۔ اور یہ واقعات اور حالات ایک کھلی حقیقت ہیں صبیحہ جیسی بہت سے لڑکیاں اسی قسم کے حالات سے گزرتے ہوئے اس

افسانوں لارنس آف تھلیبیا اور افسانہ بین میں عورت کا سماجی مطالعہ

Image
احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں عورت کا سماجی مطالعہ  افسانہ لارنس آف تھلیبیا اور افسانہ بین ق اسمی صاحب اپنے افسانوں میں ایسے کرداروں کو سامنے لاتے ہیں  جو خیالی نہیں ہوتے بلکہ یہ کردار ہمیں  روز مرہ  زندگی میں اپنے  آس پاس سانس لیتے ہوئے اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔  جنہیں پڑھ کر بے اختیار قاری اپنے  آس پاس نگاہ دوڑانے پر مجبور  ہو جاتا ہے  کیونکہ کہیں نہ کہیں ہم اپنی زندگی میں ان کرداروں سے مل چکے ہوتے  ہیں۔  خواہ وہ کردار مردانہ ہو یا نسوانی ہو مگر  ہمیں اپنے آس پاس بخوبی مل جاتے ہیں۔  کیونکہ قاسمی صاحب اپنے  افسانوں میں سماج اور اس میں رہنے والے لوگوں پر  عمدگی سے قلم اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ موضوع اگر سماج کے نسوانی کرداروں کی بات کریں تو قاسمی صاحب کے افسانوں میں ہر رنگ کی نسوانیت سانس لیتی  ہوئی دیکھائی  دیتی ہے۔ قاسمی صاحب نے اپنے افسانوں میں سماج کی صرف مثبت یا صرف منفی عورت کوجگہ نہیں دی بلکہ غیر جانبداری سے اس سماج کی ہر عورت کو موضوع گفتگو بنایا ہے جو اپنا الگ وجود رکھتی ہے۔ جن سی استحصال جن سی استحصال کے ہاتھوں شکار ہوت ی افسانہ بین کے نسوانی کردار رانو اور افسانہ لارنس آف

افسانہ سلطان کا سماجی مطالعہ

Image
افسانہ سلطان کا سماجی مطالعہ ہمارے سماج میں مختلف جگہوں، سڑکوں، گلی محلوں، بازاروں، بس اڈوں، دکانوں اور کالج یونیورسٹیوں وغیرہ  پر  روز مرہ زندگی کے دوران بھیکاری دیکھنے میں ملتے ہیں۔ کچھ پیشہ ور ہوتے ہیں۔ کچھ جسمانی معذوری کی وجہ سے بھیک مانگ کر گزارا کرتے ہیں۔ ہر کسی کی کوئی نہ کوئی کہانی یا بھیک مانگنے کی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ مگر بھکاریوں کا وجود ہماری روز مرہ زندگی سے ضرور گزرتا ہے۔ کچھ لوگ انہیں حقارت سے دھتکار دیتے ہیں۔ کچھ لعن طعن کرتے  ہوئے  یا کان لپیٹ کر گزر جاتے ہیں اور کچھ حاتم طائی کی سخاوت پر لات مارتے ہوئے فراخ دلی سے روپے دو روپے کا سکہ ان کے کشکول میں ڈال جاتے ہیں۔  ایسے میں بھیکاریوں کی مختلف شکلیں اور عمریں بھی ہمارے سامنے آتی ہیں۔ کچھ بیساکھی کا سہارا لیتے ہوئے ٹانگوں سے معذور نظر آتے ہیں تو کچھ آنکھوں کی روشنی سے محروم اندھیر زندگی گزارتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے بوڑھے بھیکاری بھی نظر آتے ہیں اور کھیل کود اور سکول جانے کی عمر کے کم سن بچے بھی نظر آتے ہیں۔ کوئی اللّٰہ کے نام پر مانگنے والا نظر آتا ہے تو کوئی لمبی عمر کی دعائیں دیتا ہوا

مرزا غالب تصور عشق

Image
مرزا غالب تصور عشق غالب نے اپنی زندگی میں ایسا عشق نہیں کیا جیسا عشق میر تقی میر نے کیا تھا چونکہ حسن اور عشق اردو غزل کا سب سے بڑا موضوع ہے تو ممکن نہیں ہے کہ شاید اسے چھو کر نہ گزرے غالب محبوب کی جدائی میں ثابت قد م رہتے ہیں اور رو رو کر اپنا حلیہ خراب نہیں کرتے انہوں نے حسن اور عشق کی کیفیت کو پیش کیا ہے کہیں عشق کی تعریف کی ہے اور کہیں نہیں کی عشق کی خوبی سے وہ بخوبی اگاہ ہیں وہ صرف اپنی ذات سے عشق کرتے ہیں اور غالب کے تصور عشق کے اندر چاہے جانے کی خواہش ہوتی ہے نہ کہ کسی کو چاہنے کی خواہش ہوتی ہے۔ غالب کی شخصیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔  غالب عشق فلسفے سے بھی اچھی طرح آگہی رکھتے ہیں۔ غالب کا شعر ہے کہ  عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا   درد کی دوا پائی درد لا مکاں پایا  

مرزا غالب کی شاعری

Image
مرزا غالب کی شاعری  جدید اردو نثر کا بانی غالب    27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں چار گھڑی سورج نکلنے سے پہلے ایک بچے نے جنم لیا۔ جس کا نام مرزا اسد اللہ خان  غالب رکھا گیا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی جو بہت بڑے مزاح نگار نثر نگار انشاء پرداز اور خاکہ نگار ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ملک مغلیہ سلطنت نے ہندوستان کو کیا دیا تو میں کہوں گا تین چیزیں تاج محل، اردو اور غالب۔  مرزا غالب مغلوں کی ہزار سالہ تہذیب کا ترجمان تھے۔ غالب نے اردو شاعری اور نثر کو وقار دیا۔ اسے با مسرت بنایا اور آفاق گیر بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ جدید اردو نثر کے بانی مرزا غالب ہیں۔ مرزا غالب اپنی زندگی میں ہمیشہ نا آسودہ رہے کیونکہ جس پائے کے وہ شاعر تھے انہیں اس درجے کی شہرت نہیں ملی۔ غالب کو ان کی زندگی میں نہیں بلکہ ان کے مرنے کے بعد زیادہ شہرت ملی۔  مولانا الطاف حسین حالی جو غالب کے شاگرد تھے۔ انہوں نے اپنے استاد یعنی مرزا غالب کے یاد میں ایک کتاب لکھی۔ جسے سب یادگار غالب کے نام سے جانتے ہیں۔ اگر الطاف حسین حالی یہ کتاب نہ لکھتے تو شاید اج غالب کا نام نہ ہوتا۔ اگر غالب دوبارہ زندہ ہوئے تو اس کی ایک وجہ مولانا

احمد ندیم قاسمی کا افسانہ احسان کا سماجی مطالعہ

Image
احمد ندیم قاسمی افسانہ احسان کا سماجی مطالعہ  سماجی نظام ہمارے  سماج میں ایسی بہت سی عورتیں اور لڑکیاں دیکھی جا سکتی ہیں جو اکیلی اس سماج کے لوگوں اور  ندگی کے حالات کا مقابلہ کر رہی ہوتی ہیں۔ جو وقت اور عمر سے زیادہ سمجھدار اور حوصلہ مند ہوتی ہیں۔ سماج کے لوگ ایسی عورتوں اور لڑکیوں کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ کچھ اپنی ہوس کا نشانہ بنانے پر تلے رہتے ہیں تو کوئی ہمدردی کی صورت میں اپنا مفاد نکالنے کی کوشش میں لگا رہتا  ہے ایسے میں قاسمی صاحب صبیحہ کی شکل میں اس سماج کے لوگوں اور زندگی کے حالات سے لڑتی ہوئی لڑکی کو اپنے افسانے احسان میں سامنے لاتے ہیں۔ جہاں وہ صبیحہ کی زندگی کا منظر نامہ پیش کرتے ہوئے اس کے حالات کو بیان کرتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے فالج زدہ باپ کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے اس سماج سے مختلف قسم کے خوف اور خدشات کا شکار ہے ۔  موضوع سماجی حوالے سے یہ موضوع اور منظر نامہ ایک عام سا نظر آتا ہے مگر حقیقتاً خاصا اہمیت کا حامل ہے ۔ سماج کے کچھ لوگ ایسی لڑکیوں کے کردار کو شک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور کچھ کسی نہ کسی طرح ان سے اپنی ہوس پوری کرنے کے چکر میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ ق

احمد ندیم قاسمی کا افسانہ سفارش

Image
 احمد ندیم قاسمی افسانہ سفارش ہمارے    سماج کا ایک اور منظر نامہ جو باآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ غریب آدمی کو اپنا کام نکلوانے کے لیے کسی  پہنچ والے آدمی سے سفارش کروانی پڑتی ہے۔ اپنا معمولی سا کام کروانے کے لیے بھی طرح طرح کے پاپڑ بیلنے  پڑتے ہیں۔ لوگوں کی منتیں کرنی پڑتی ہیں۔ اسی موضوع پر قاسمی صاحب کا افسانہ سفارش  ہے۔ جس میں غریب  کوچوان فیکا اپنے باپ کے علاج کے لیے مختلف لوگوں کی منتیں کرتا ہے کہ اپنی سفارش سے  میرے باپ کو  ہسپتال میں علاج کے لیے جگہ دلوا دو اور کسی طرح ڈاکٹر تک رسائی کا راستہ نکلوا دو۔ موضوع پورے افسانے میں یہی موضوع زیر بحث ہے۔ کہ کیسے فیکا کوچوان اپنے ساتھی کوچوان کے سالے کی سفارش کے زریعے  ہسپتال کے برانڈے میں جگہ لینے میں کامیاب ہوتا ہے اور پھر کیسے فیکا بابو جی نامی ایک شخص کے گھر کے چکر کاٹ کاٹ کر  اسے یہ سفارش کرنے کی درخواست کرتا ہے کہ کسی طرح ڈاکٹر صاحب سے کہہ کر ایک بار میرے باپ کی خراب آنکھ دیکھنے  کی  سفارش کر دو۔ فیکا ایک غریب اور عجز و انکساری والا آدمی ہے۔ اس کے ہر عمل میں عاجزی اور ممنونیت دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے  باپ کی آنکھ ہر وقت سرخ رہتی تھی ای